الحمد للہ.
بلا شك و شبہ نوح اور لوط عليہما السلام كى بيوياں جہنم ميں داخل ہونگى، ليكن ان دونوں سے كوئى ايسى چيز ظاہر نہيں ہوئى جو كفر كى طرف لے جاتى ہو، وگرنہ كافرہ عورت كا اپنے نكاح ميں ركھنا جائز نہيں كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور كافر عورتوں كى ناموس اپنے قبضہ ميں نہ ركھو .
ہو سكتا ہے نوح عليہ السلام كى بيوى باطنى طور پر كفر كرتى ہو، يا جب نوح عليہ السلام نے اتنى طويل مدت اپنى قوم كو دين كى دعوت دى اور قوم نے قبول نہ كيا تو ان كى بيوى نے جب ديكھا كہ اس كى سارى قوم كى ہى كفر پر ہے تو وہ بھى متاثر ہوئى اور اس ميں شك كرتے ہوئے كہنے لگى: يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ نوح عليہ السلام اكيلے ہى مومن ہوں اور باقى سب كافر حالانكہ وہ امت كے اكثر اور جمہور ہيں.
ہو سكتا ہے اس كى كفر خفيہ ہو اور اسى طرح لوط عليہ السلام كى بيوى كا بھى كوئى گناہ بيان نہيں كيا ليكن يہ ہے كہ وہ لوگوں كى لوط عليہ السلام كے مہمانوں كے بارہ ميں بتاتى تھى يعنى لوط عليہ السلام كے پاس آنے والے مہمانوں كے ساتھ بدفعلى كرنے كى دعوت ديتى تھى، لوط عليہ السلام كى بيوى كا گناہ يہ تھا، اور يہ بھى ممكن ہے وہ بھى باطن ميں كفر ركھتى ہو اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا ہے:
سوائے اس كى بيوى كے كہ وہ ہى ان لوگوں ميں رہى جو عذاب ميں رہ گئے تھے .
شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ كے جواب كا خلاصہ يہى ہے.
خاوند كے ليے جائز ہے كہ جب كوئى شرعى سبب ہو جس كى بنا پر طلاق دينا جائز ہو مثلا بيوى كا اخلاق صحيح نہ ہو، يا پھر بےدين ہو، يا عفت و عصمت ميں نقص ہو، يا پھر وہ خاوند كى خدمت كرنے ميں سستى كرتى ہو اگرچہ وہ كافرہ نہ ہو.
ليكن اگر وہ مومن اور صالحہ عورت ہو تو وہ اسے اپنے پاس ہى ركھے اگرچہ اس كى بعض خصلتيں اسے ناپسند بھى ہوں جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مومن شخص كسى مومن عورت سے بغض نہيں ركھتا اگر وہ اس كے كسى خلق كو ناپسند كرتا ہے تو دوسرے كو پسند كريگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1496 ).
اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا كى طلاق دينا چاہى تو آپ كو وحى كى گئى كہ:
حفصہ سے رجوع كر لو كيونكہ وہ روزے ركھنے والى اور قيام كرنے والى ہے، اور جنت ميں بھى آپ كى بيوى ہے "
امام منذرى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اسے نسائى اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.
ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابى داود حديث نمبر ( 2283 ).
خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كى اصلاح كى كوشش كرے اور اس كے ليے اللہ تعالى سے دعا كرے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس كى اصلاح فرمائے، جب اللہ چاہے تو ٹيڑھى بيوى كى اصلاح فرما ديتا ہے، جيسا كہ اللہ تعالى نے اپنے بندے زكريا عليہ السلام كے بارہ ميں فرمايا:
اور ہم نے اس كى بيوى كو صحيح كر ديا .
كچھ مفسرين كا كہنا ہے كہ ان كى بيوى زبان دراز تھى يعنى اپنى خاوند كے سامنے زبان درازى كرتى تھى تو اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كى اصلاح فرما دى.
انسان بيوى كو باقى ركھنے كى تكليف اور كرواہٹ كو برداشت كرتا ہے تا كہ اس سے بڑى چيز يعنى اولاد اور خاندان كو بكھرنے سے محفوظ ركھ سكے.
اس ليے اگر بيوى كا ركھنا اس كو جدا كرنے سے زيادہ نقصان دہ ہو جائے تو پھر اسے طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں "
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
واللہ اعلم .