الحمد للہ.
بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ میں موجود رقم اصل میں بینک کو قرضہ دیا جاتا ہے، اور علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی قرضہ منافع ساتھ لائے تو وہ سود ہے، اور بعض صحابہ کرام سے یہ ثابت ہے کہ وہ کہتے تھے: مقروض شخص کی جانب سے قرض خواہ شخص کو دیا جانے والا تحفہ سود ہے۔
چنانچہ بخاری: (3814) میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "اگر آپ نے کسی آدمی سے کچھ قرض واپس لینا ہے اور وہ آپ کو بھوسا، جو یا جانوروں کے چارے کا پالان بھر کے بھیج دیتا ہے تو وہ آپ مت وصول کریں، یہ سود ہے"
تو بینک کی جانب سے اپنے صارف کو کرنٹ اکاؤنٹ کی وجہ سے تحفہ دیا جا رہا ہے تو یہ سود ہو گا۔
شیخ ڈاکٹر محمد بن سعود عصیمی حفظہ اللہ سے ایسے تحفے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
"اگر یہ کرنٹ اکاؤنٹ کی وجہ سے ہے تو پھر یہ بلا شک و شبہ سود ہے؛ کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ قرضے کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ کے حامل افراد کو یہ نہیں لینا چاہیے، لیکن اگر صارف کا اکاؤنٹ سرمایہ کاری والا ہے تو پھر اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں" ختم شد
واللہ اعلم.