سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

عمرہ كى ادائيگى كے ليے روزہ چھوڑنا

سوال

كيا اگر مسافر مكہ روزے كى حالت ميں پہنچے اور عمرہ كى ادائيگى كے ليے روزہ چھوڑنا جائز ہوگا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" فتح مكہ كے موقع پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيس رمضان المبارك كو مكہ ميں داخل ہوئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بغير روزہ كے تھے، اور اہل مكہ كو قصر نماز پڑھاتے رہے اور آپ فرماتے:

" اے اہل مكہ تم اپنى نماز مكمل كرو كيونكہ ہم تو مسافر ہيں "

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے ذكر كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سال رمضان المبارك ميں روزے نہيں ركھے، يعنى آپ نے غزوہ فتح مكہ ميں دس روزے چھوڑے تھے.

اور صحيح بخارى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مہينہ كے آخر تك بغير روزہ كے رہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1944 ).

اس ميں كوئى شك نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس مدت ميں نماز دو ركعت ہى ادا كرتے رہے؛ كيونكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم مسافر تھے.

اس ليے كسى مسافر كا مكہ پہنچنے سے سفر ختم نہيں ہوگا، اور جب وہ مكہ ميں بغير روزہ سے جائے تو اس كے ليے باقى دن بغير كھائے پيئے گزارنا لازم نہيں، بلكہ ہم اسے يہى كہيں گے كہ:

" اگر آپ كے ليے عمرہ كى ادائيگى ميں روزہ نہ ركھنا تقويت كا باعث ہے تو آپ روزہ نہ ركھيں، كہ جب آپ عمرہ كريں گے تو آپ كو تھكاوٹ ہوگى.

بلكہ كچھ لوگ تو سفر ميں بھى روزہ ركھتے ہيں ان كا خيال يہ ہوتا ہے كہ وقت حاضر ميں سفر كوئى مشقت نہيں اس ليے وہ سفر ميں بھى روزہ ركھتے ہيں، اور جب مكہ پہنچتے ہيں تو تھكے ہوئے ہونگے، اور دل ميں سوچنا شروع كر ديتے ہيں كہ كيا ميں روزہ جارى ركھوں اور عمرہ افطارى كے بعد كر لوں ؟

يعنى عمرہ رات كو ادا كروں يا كہ افضل يہ ہے كہ مكہ پہنچتے ہى روزہ افطار كر كے عمرہ كى ادائيگى كر لوں ؟

تو اس حالت ميں اسے اسے يہى كہيں گے كہ اس كے ليے روزہ افطار كرنا ہى افضل ہے، چاہے اس نے روزہ ركھا بھى ہو تو وہ مكہ پہنچ كر روزہ افطار كر لے تا كہ فورى طور پر عمرہ كى ادائيگى كر سكے.

كيونكہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مكہ پہنچے اور آپ احرام كى حالت ميں ہوتے تو سيدھے مسجد حرام تشريف لاتے حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى سوارى ہى مسجد كے قريب بٹھاتے، اور آپ نے جس كا احرام باندھا ہوتا وہ مكمل كرتے.

اس ليے آپ كا دن كے وقت عمرہ كى ادائيگى كے ليے روزہ افطار كرنا ہى روزہ كى حالت ميں رہنے سے افضل ہے، پھر جب آپ نے روزہ افطار كر ديا تو رات كو عمرہ كى ادئيگى كر ليں، اور يہ ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب فتح مكہ كے ليے مكہ گئے تو روزہ سے تھے.

چنانچہ كچھ لوگ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كچھ لوگوں كے ليے روزہ مشكل ہوگيا ہے، اور وہ آپ كے فعل كا انتظار كر رہے ہيں كہ آپ كيا كرتے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ نے عصر كے بعد پانى منگوا كر نوش فرمايا، يہ سب اس ليے تھا كہ روزے كى بنا پر انسان اپنے آپ پر مشقت نہ كرے، ليكن اس كے باوجود كچھ لوگ تكلف كرتے ہوئے سفر ميں روزہ ركھتے ہيں جو بلاشك و شبہ سنت كے خلاف ہے.

اور ان پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان لاگو ہوتا ہے:

" سفر ميں روزہ ركھنا كوئى نيكى نہيں ہے " انتہى .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب