الحمد للہ.
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (حج عرفہ کا نام ہے) کا مطلب یہ ہے کہ حج میں وقوف عرفہ انتہائی ضروری ہے، چنانچہ اگر کوئی عرفہ میں وقوف نہیں کر سکتا تو وہ حج کو نہیں پا سکا، اور بالاجماع اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جس نے عرفہ کا وقوف کر لیا اس پر حج کے اعمال میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا؛ کیونکہ اگر انسان عرفہ میں وقوف کر لے تو اس پر حج کے دیگر بہت سے اعمال باقی رہتے ہیں جیسے کہ مزدلفہ میں رات گزارنا، طواف افاضہ کرنا، صفا اور مروہ کی سعی ، جمرات کو کنکریاں مارنا، اور منی میں رات گزارنا وغیرہ۔
لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفہ کا حج میں ہونا انتہائی نا گزیر ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص عرفات میں وقوف نہیں کرتا تو اس کا حج ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل علم کہتے ہیں: جو شخص عرفات میں وقوف نہ کر پائے تو اس سے حج بھی چوک گیا ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (23/24)
واللہ اعلم.