الحمد للہ.
جمعہ کے دن یا جمعۃ کی رات میں سورۃ الکھف پڑھنے کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث وارد ہیں جن میں سےکچھ کا ذکرذیل میں کیا جاتا ہے :
ا - ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نورکی روشنی ہوجاتی ہے ) سنن دارمی ( 3407 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6471 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
ب – فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اسے کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے ) مستدرک الحاکم ( 2 / 399 ) بیھقی ( 3 / 249 ) اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی " تخریج الاذکار " میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے ، اور ان کا کہنا ہے کہ سورۃ الکھف کے بارہ میں سب سےقوی یہی حديث ہے ۔ دیکھیں " فیض القدیر " ( 6 / 198 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6470 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
ج - ابن عمررضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے قدموں کے نیچے سے لیکر آسمان تک نور پیدا ہوتا ہے جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہوگا اور اس دونوں جمعوں کے درمیان والے گناہ معاف کردیۓ جاتے ہیں ۔
منذری کا کہنا ہے کہ : ابوبکر بن مردویہ نے اسے تفسیر میں روایت کیا ہے جس کی سند میں کوئ حرج نہیں ، لاباس بہ کہا ہے ۔ الترغیب والترھیب ( 1 / 298 ) ۔
سورۃ الکھف جمعہ کی رات یا پھر جمعہ کے دن پڑھنی چاہیے ، جمعہ کی رات جمعرات کومغرب سے شروع ہوتی اور جمعہ کا دن غروب شمس کے وقت ختم ہوجاتا ہے ، تو اس بناپر سورۃ الکھف پڑھنے کا وقت جمعرات والے دن غروب شمس سے جمعہ والے دن غروب شمس تک ہوگا ۔
مناوی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " امالیہ " میں کہا ہے کہ : کچھ روایا ت میں اسی طرح ہے کہ یوم الجمعۃ اور کچھ روایات میں لیلۃ الجمعۃ کے الفاظ ہیں، اور ان میں جمع اس طرح ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ لیا جاۓ کہ دن اس کی رات کے ساتھ اور رات اپنے دن کے ساتھ ، ( یعنی یوم الجمعۃ کا معنی دن اوررات اورلیلۃ الجمعۃ کا معنی یہ ہوگا کہ رات اور دن ) فیض القدیر( 6 / 199 )۔
اور مناوی رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ :
جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھنی مندوب ہے اورجیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی سے یہ منصوص ہے کہ جمعہ کی رات بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔ دیکھیں فیض القدیر ( 6 / 198 ) ۔
جمعہ کے دن سورۃ آل عمران کی تلاوت کرنے کے متعلق جتنی بھی احادیث وارد ہیں ان میں کوئ ایک بھی صحیح نہیں بلکہ یا تووہ ضعیف اور یاپھر موضوع ہیں ۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جمعہ کے دن جس نے بھی سورۃ آل عمران پڑھی اس پر اللہ تعالی اوراسکے فرشتے غروب شمس تک رحمتیں بھیجتے ہیں ) ۔ اسے طبرانی نے المعجم الاوسط ( 6 / 191 ) اور معجم الکبیر ( 11 / 48 ) میں روایت کیا ہے ۔
یہ حدیث بہت ہی زیادہ ضعیف یا پھر موضوع ہے ۔
اس کے متعلق ھیثمی کا کہنا ہے کہ : اسے طبرانی نےالمعجم الاوسط اور معجم الکبیرمیں روایت کیا ہے اس کی سند میں طلحۃ بن زید الرقی ضعیف ہے ۔ مجمع الزوائد ( 2 / 168 )
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : طلحۃ ضعیف جدا ہے بلکہ امام احمد اور ابوداود رحمہما اللہ نے تواس کی طرف وضع کی نسبت کی ہے ۔ فیض القدیر ( 6 / 199 ) ۔
اورشیخ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوموضوع قرار دیا ہے دیکھیں ضعیف الجامع حدیث نمبر ( 5759 ) ۔
اور ایسے ہی اس ( سورۃ آل عمران ) کے بارہ میں تمیمی رحمہ اللہ تعالی نے " الترغیب " میں یہ حدیث روایت کی ہے :
( جس نے جمعہ کی رات سورۃ آل عمران پڑھی اسے اتنا اجر ملے گا جتنا کہ بیداء یعنی ساتویں زمین اور عروب یعنی ساتویں آسمان کے درمیان فاصلہ ہے ) اس حدیث کے بارہ میں مناوی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ غریب اور بہت ہی ضعیف ہے ۔ دیکھیں " فيض القدیر " ( 6 / 199 ) ۔
واللہ تعالی اعلم ۔ .