الحمد للہ.
اول:
آپ كا قول: " يہ ميرے اپنے ساتھ ہى آواز كے ساتھ تھا " اگر تو آپ كا مقصد يہ ہے كہ آپ نے يہ كلام كے الفاظ كى ادائيگى نہيں كى بلكہ آپ كے خيال اور دل ميں يہ سب ہوا اور يہ دل سے كلام كرنے سے خارج نہيں ہوا تو اس پر كچھ مرتب نہيں ہوگا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے دل ميں بات چيت جب تك اس پر عمل نہ كيا جائے، يا كلام نہ كى جائے كو معاف كر ديا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5269 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 201 ).
چنانچہ طلاق صرف نيت سے واقع نہيں ہو جاتى، بلكہ اس كے ليے كوئى دليل ہونى چاہيے مثلا صيغہ يا لكھائى اسى ليے قتادہ رحمہ اللہ كا قول ہے:
" جب كوئى شخص اپنے دل ميں طلاق دے تو يہ كچھ شمار نہيں ہوگى "
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خطابى رحمہ اللہ نے بالاجماع اس پر دليل لى ہے كہ جس كسى نے بھى ظھار كا عزم كيا تو وہ ظھار كرنے والا نہيں كہلائيگا، ان كا كہنا ہے: اور طلاق بھى اسى طرح ہے، اور اسى طرح اگر كسى شخص نے اپنے دل ميں كسى پر بہتان لگايا تو يہ بہتان لگانے والا نہيں ہے، اگر دل ميں خيال پيدا ہونا اور بات كرنا اثرانداز ہوتا تو نماز باطل ہو جاتى " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 394 ).
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 81726 ) كے جواب ميں معلوم كى جا سكتى ہے.
ليكن اگر آپ نے يہ كلمات زبان سے نكالے اور آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كى زبان سے يہ نكلا تھا " تم مجھ سے آزاد ہو " اور آپ اس عبارت سے يہ مراد لے رہے تھے مجھ سے آزاد تو جمہور علماء كے ہاں غلطى والے كى طلاق واقع نہيں ہوتى.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم سے بھول چوك ميں جو كچھ ہو جائے اس ميں تم پر كوئى گناہ نہيں، البتہ گناہ وہ ہے جس كا ارادہ تم دل سے كرو الاحزاب ( 5 ).
اور ارشاد بارى تعالى ہے:
اے ہمارے پروردگار اگر ہم بھول گئے ہوں يا خطا كى ہو تو ہمارا مؤاخذنا نہ كرنا البقرۃ ( 286 ).
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب يہ آيت نازل ہوئى تو اللہ تعالى نے فرمايا: ميں نے ايسا ہى كيا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 200 ).
اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ تعالى نے ميرى امت سے خطا و نسيان اور بھول چوك اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2045 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1027 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے جس كى زبان سے بغير كسى قصد و ارادہ كے طلاق كے الفاظ نكل جائيں تو قصد و ارادہ نہ ہونے كى بنا پر طلاق واقع نہ ہوگى.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
مقصود يہ ہے كہ بغير كسى مقصد و ارادہ كے زبان سے طلاق كے الفاظ تو جمہور علماء كے ہاں يہ واقع ہونے ميں مانع ہوگى " انتہى
ديكھيں: اغاثۃ اللھفان فى حكم طلاق الغضبان ( 60 ).
اور غزالى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں:
پہلا سبب:
زبان سے نكل جانا، اگر دوران كلام اس كى زبان سے يا پھر نيند ميں طلاق كا لفظ نكل جائے تو طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى
ديكھيں: الوسيط للغزالى ( 5 / 385 ).
اور العدوى اپنے حاشيۃ ميں لكھتے ہيں:
" جو كوئى طلاق كے علاوہ كلام كرنا چاہے ليكن اس كى زبان سے طلاق كے الفاظ نكل جائيں تو اس پر كچھ نہيں، اگر يہ ثابت ہو جائے كہ بيغر كسى ارادہ كے زبان سے نكل گيا تھا " انتہى
ديكھيں: حاشيۃ العدوى ( 2 / 102 ) مزيد آپ الشرح الكبير تاليف احمد الدردير ( 2 / 366 ) اور حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 366 ) كا مطالعہ كريں.
پھر آپ كا قول: " تم مجھ سے آزاد ہو " يہ طلاق كے كنايہ كے ان الفاظ ميں شامل ہوتے ہيں جن سے طلاق اس وقت واقع ہوتى ہے جب خاوند اس كلام سے طلاق نيت ركھتا ہو، جب آپ نے طلاق كا مقصد نہيں ليا تو طلاق واقع نہيں ہوگى.
آپ كے سوال سے تو يہى ظاہر ہوتا ہے اس سے آپ كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
واللہ اعلم .