الحمد للہ.
اگر مسلمان شخص كسى ايسے ملك ميں رہتا ہو جہاں مہينہ كى ابتدا ميں شرعى رؤيت كا اعتبار ہوتا ہو تو پھر اسے يہى حكم ہے كہ وہ ان كے ساتھ ہى روزہ ركھے اور عيد كرے، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 12660 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.
ليكن اگر مسلمان كسى كافر يا پھر كسى ايسے ملك ميں بستا ہو جہاں مہينہ كى ابتدا اور اختتام كے ساتھ كھيلا جاتا ہو اور وہ اپنى خواہش كے مطابق مہينہ شروع اور ختم كرتے ہوں اور اس ميں شرعى رؤيت كا خيال نہ كريں تو پھر اس علاقے كے لوگ قريب ترين ملك كے تابع ہيں جو رؤيت ہلال پر عمل كرتے ہوں، اور اگر وہ كسى ايسے ملك كے ساتھ روزہ ركھے جن كى رؤيت موثوق ہو مثلا حرمين تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اس بنا پر مثال كے طور پر انڈيا ميں روزہ رؤيت ہلال پر عمل كرنے والے ملكوں كے ايك دن بعد ركھا گيا ہے ہم روزہ ركھنے والوں كو كہيں گے: تم انڈيا والوں كے ساتھ عيد مت كرو بلكہ عيد ان كے ساتھ مناؤ جو ملك چاند ديكھ كر عمل كرتا ہے اور ايك دن كے روزے كى قضاء كر لو يعنى يكم رمضان كے روزے كى "
واللہ اعلم .