منگل 25 جمادی اولی 1446 - 26 نومبر 2024
اردو

کیا حج تمتع کی قربانی کو حدود حرم سےباہر ذبح کرنا جائز ہے؟

سوال

کیا حج تمتع کی قربانی کو حدود حرم سے باہر ذبح کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"اہل علم کہتے ہیں کہ: حج تمتع کی قربانی حدود حرم میں ذبح کرنا واجب ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ)
ترجمہ: پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ بیت عتیق [حدود حرم]ہے ۔[الحج:33]

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اپنی قربانی منی میں ذبح کی تھی ، اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (تم مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو) [اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں ہر حاجی کو حدود حرم میں ہی قربانی ذبح کرنا ہوگی۔ مترجم]

اس کے علاوہ قربانی کا تعلق چونکہ حج سے ہے اس لیے قربانی بھی اسی جگہ ہو گی جہاں پر حج ہوتا ہے اور وہ ہے حدود حرم، اس لیے اگر کسی نے اپنی قربانی حدود حرم سے باہر کی تو ایسی قربانی کفایت نہیں کرے گی اور اسے حدود حرم میں دوبارہ قربانی کرنا ہو گی، تاہم اگر اسے اس بات کا علم نہیں تھا تو اسے اس عمل پر گناہ نہیں ہو گا، لیکن اگر اسے قربانی حدود حرم میں کرنے کا علم تھا تو پھر اسے گناہ بھی ہو گا۔

الفروع کتاب کے مؤلف نے  صفحہ: (3/465)  میں اشارہ کیا ہے کہ چاروں ائمہ کا اتفاق ہے کہ حدود حرم میں حج کی قربانی کا جانور ذبح کرنا واجب ہے۔

تاہم شیرازی رحمہ اللہ  نے "المهذب" (ص 411) میں لکھا ہے کہ:
"اگر کسی احرام باندھنے والے شخص پر احرام کی وجہ سے قربانی کرنا  لازمی ہو جائے  مثلاً کہ : حج تمتع اور قران کی قربانی  کرنی ہو، یا خوشبو لگانے اور شکار کرنے کی وجہ سے  دم دینا لازمی ہو گیا ہو تو اسے حرم کے مساکین میں بانٹنا واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ)
ترجمہ: یہ [دم کا ]جانور کعبہ لے جا کر قربانی کیا جائے۔ [المائدة:95]
چنانچہ اگر اس نے جانور حدود حرم سے باہر ذبح کیا اور پھر اسے حدود حرم میں داخل کیا تو دیکھا جائے گا کہ اگر گوشت خراب ہو گیا ہے اور بو آنے لگی ہے تو پھر اس کا حدود حرم سے باہر جانور ذبح کرنا کافی نہیں ہو گا؛ کیونکہ حق تو یہ تھا کہ مکمل صحیح سلامت گوشت  مساکین حرم میں تقسیم کیا جائے، لہذا خراب اور متعفن گوشت کفایت نہیں کرے گا، البتہ اگر گوشت خراب نہ ہوا ہو تو اس میں دو موقف ہیں:

پہلا موقف: کفایت نہیں کرے گا؛ کیونکہ قربانی کو حدود حرم میں ذبح کرنا بھی شرعی طور پر مطلوب ہے، چنانچہ جس طرح قربانی کا گوشت حدود حرم میں تقسیم کرنا واجب ہے اسی طرح جانور بھی وہیں پر ذبح کیا جائے گا۔

دوسرا موقف: کفایت کر جائے گا؛ کیونکہ شرعی طور پر مقصود یہ ہے کہ گوشت حدود حرم کے مساکین تک پہنچے اور وہ پہنچ چکا ہے" انتہی

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہی موقف صحیح ہے۔

البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ جواب کے شروع میں ذکر کردہ دلائل کی وجہ سے حدود حرم سے باہر جانور ذبح کرنا منع ہے۔" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین " (22/ 226، 227)

واللہ اعلم.

"مجموع فتاوى ابن عثیمین " (22/ 226، 227)

ماخذ: الاسلام سوال و جواب