الحمد للہ.
"اس سوال کے جواب کے لیے معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کار ہے کہ آپ اسلام کی دعوت دینے والے افراد کو کیا تعلیمات دے کر بھیجتے تھے؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب اسلام کی دعوت دینے کے لیے صحابہ کرام کو بھیجتے تو انہیں حکم فرماتے کہ سب سے پہلے اللہ تعالی کی وحدانیت کی دعوت دینی ہے، پھر نماز کی اور اس کے بعد زکاۃ کی پھر اگر روزوں اور حج کا وقت ہو تو ان کی دعوت بھی دینی ہے۔
جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ سب سے پہلے انہیں اللہ تعالی کی وحدانیت کی دعوت دینی ہے، اگر وہ اس کا اقرار کر لیں تو انہیں نماز کی دعوت دینا، پھر نماز کی دعوت قبول کر لیں تو انہیں زکاۃ ادا کرنے کی دعوت دینا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ کو روزوں اور حج کا حکم نہیں دیا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ایسے وقت میں روانہ فرمایا تھا جب روزوں اور حج کا وقت نہیں ہوا تھا؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ کو ہجرت کے دسویں سال ربیع الاول کے مہینے میں بھیجا تھا، اس طرح ابھی حج میں کافی وقت پڑا تھا اور اسی طرح روزوں میں بھی ابھی وقت باقی تھا۔
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ لوگوں کو یک بارگی سب احکامات نہ بتلائے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حکمت عملی اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق ہے:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ
ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی دعوت حکمت کے ساتھ دو۔ [النحل: 125]
اور اسی طرح یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا: کسی نو مسلم کے اسلام قبول کرنے کے فوری بعد فروعی مسائل بتلائے جائیں مثلاً: ڈاڑھی کا حکم، ٹخنوں سے نیچے لباس رکھنے کا حکم وغیرہ؟
اس سوال کا جواب بھی سابقہ بات پر ہے کہ بہترین طریقہ کار جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے، اس لیے سب سے پہلے اسلام کے بنیادی عقائد سکھائے جائیں، جب اسلام کے بنیادی عقائد اس کے دل میں جا گزین ہو جائیں تو اس کے بعد اہم ترین امور کو اہم امور سے پہلے سکھائیں گے۔
بہ تدریج چلنا یہ اللہ تعالی کے شرعی اور کائناتی قانون میں شامل ہے، آپ غور کریں کہ پیٹ میں بچے کی تخلیق آہستہ آہستہ شروع ہوتی ہے، سال کے چاروں موسم رفتہ رفتہ تبدیل ہوتے ہیں، طلوع آفتاب اور غروب بھی بہ تدریج ہوتا ہے، اس لیے اگر ہم کسی نو مسلم کو تمام کے تمام شرعی امور یک بارگی سکھانا شروع کر دیں ، یا تمام شرعی امور کی یک لخت پابندی کا حکم کر دیں تو معاملہ بہت لمبا ہو جائے گا، بلکہ ممکن ہے کہ اس طرح وہ دین اسلام سے ہی متنفر ہو جائے۔" ختم شد
فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ
"الإجابات على أسئلة الجاليات" (1/27- 30)