سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

عورت سے دل بہلاتے ہوئے اگر كسى كا انزال ہو جائے تو اس پر كفارہ نہيں

110086

تاریخ اشاعت : 24-08-2009

مشاہدات : 9552

سوال

رمضان المبارك ميں بيمار ہونے كى بنا پر ڈاكٹر نے مجھے روزے نہ ركھنے كا مشورہ ديا، اور كچھ دوائياں استعمال كرنے كے ليے ديں ڈاكٹر نے يہ ادويات مجھے پانچ يوم تك استعمال كرنے كا كہا اور ميرى بيوى نے اس كى ہدايات پر عمل كرنے كا اصرار كيا، ہم رمضان ميں ايك دوسرے سے دل بہلاتے رہے، ليكن ہميں يہ كبھى مشكل نہ تھى.
اسى طرح ميں اور ميرى بيوى حدود كو جانتے تھے، اور ميرى بيمارى كے چوتھے دن ميں نے روزہ ركھنے كا فيصلہ كيا ليكن بيوى كو نہ بتايا كيونكہ وہ چاہتى تھى كہ ڈاكٹر نے جو دوائى دى ہے وہ مكمل كروں.
مجھے اللہ پر بھروسہ تھا كہ اللہ نے مجھے صحت و تندرستى سے نوازا ہے اور ميں روزہ ركھنا چاہتا تھا اس ليے ميں نے روزہ ركھ ليا، اس دن صبح كے وقت ميں اور بيوى نے آپس ميں دل بہلايا اور جب ميں نے بيوى كو دل بہلانے كا كہا تو اس نے ذرا بھى توقف نہيں كيا حتى كہ مجھ پر شہوت غالب آ گئى اور انزال ہو گيا.
جيسا آپ خيال كرتے ہيں مجھے اس كا بہت صدمہ ہوا اور اسى طرح جب ميں نے بيوى كو بتايا كہ ميرا تو روزہ تھا تو اسے بھى صدمہ پہنچا، اس ليے كيا مجھے دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا ہونگے يا كہ ايك روزہ ہى كافى ہے، يا كہ يہ غلطى سے روزہ توڑنے كے زمرے ميں آتا ہے، اللہ جانتا ہے ميرا ارادہ اور نيت ايسا كرنے كا نہيں تھا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيمارى شديد ہونے كى صورت ميں آپ نے روزے نہ ركھ كر اچھا عمل كيا ہے، اور اسى طرح جب آپ نے روزہ ركھنے كى استطاعت محسوس كى تو روزہ ركھ كر بھى بہتر عمل كيا ہے، ليكن بہتر تو يہى تھا كہ آپ ڈاكٹر سے مشورہ كرتے، جب آپ نے اس دن كا روزہ ركھ ليا اور آپ كو روزہ كى بنا پر كوئى نقصان اور ضرر نہيں ہوا تو آپ كے ليے وہ روزہ مكمل كرنا لازم تھا.

روزے كى حالت ميں خاوند كے ليے بيوى سے دل بہلانے ميں كوئى مانع نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اسے روزہ ٹوٹنے كا خدشہ نہ ہو تو پھر ، ليكن اگر اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہ ہو اور روزہ خراب ہونے كا خدشہ ہو تو پھر ايسا كرنا جائز نہيں.

علامہ مصطفى الرحيبانى حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر كسى كو يہ گمان ہو كہ اسے انزال ہو جائيگا تو بغير كسى اختلاف كے اس كے ليے بوسہ لينا، اور معانقہ كرنا بغل گير ہونا اور بار بار بيوى كو ديكھنا حرام ہے " انتہى

ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 2 / 204 ).

چنانچہ اگر آپ نے اپنى بيوى سے اس صورت ميں دل بہلايا كہ آپ كو روزہ ٹوٹنے كا كوئى خدشہ نہ تھا تو پھر آپ پر كوئى گناہ نہيں، چاہے روزہ ٹوٹ بھى گيا.

ليكن اگر آپ كو يہ گمان تھا كہ ايسا كام كرنے سے آپ كو انزال ہو جائيگا تو آپ كو بيوى سے دل بہلانے ميں گناہ ہوا ہے اور آپ كو اس سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے.

ليكن روزہ دونوں حالتوں ميں ہى فاسد ہو جائيگا، كيونكہ آپ كا انزال ہو گيا تھا، چاہے آپ نے روزہ توڑنے كى نيت كى تھى يا نہيں.

شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب خاوند اپنى بيوى سے ہاتھ كے ساتھ مباشرت كرے اور يا چہرے كے ساتھ اس كا بوسہ لے يا شرمگاہ كے ساتھ بغير دخول كيے مباشرت كرے اور اس كا انزال ہو جائے تو اس كا روزہ ٹوٹ جائيگا، اور اگر انزال نہ ہو تو اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 388 ).

آپ كو اس روزے كى جگہ ايك دن كا روزہ بطور قضاء ركھنا ہو گا، اور آپ پر كفارہ نہيں.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب بغير جماع كے كسى نے روزہ توڑا ہو يعنى كھا پى كر يا پھر مشت زنى كر كے، اور انزل تك لے جانے والى مباشرت تو اس پر كوئى كفارہ نہيں؛ كيونكہ نص ميں تو جماع كا آيا ہے اور يہ اشياء اس معنى ميں نہيں " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 6 / 377 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب