الحمد للہ.
اول:
غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق ميں واقع بھى ہو جاتى ہے اور طلاق واقع نہيں بھى ہوتى، اگر غصہ بہت شديد ہو كہ انسان كو شعور تك نہ رہے اور وہ ادراك نہ ركھتا ہو كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو عام اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہو گى.
ليكن اگر غصہ شديد تو ہو ليكن شعور اور ادراك موجود ہو اور اس كے ساتھ انسان اپنى زبان كو طلاق كے الفاظ سے روك نہ سكتا ہو، كہ اگر يہ غصہ نہ ہوتا تو وہ طلاق نہ ديتا، تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے، اور جمہور علماء اس طلاق كے واقع ہونے كا مسلك ركھتے ہيں، اور بعض اہل علم نے يہ طلاق واقع نہ ہونے كو راجح قرار ديا ہے.
ليكن قليل سا غصہ يا درميانے درجہ كا غصہ ہو تو اس سے طلاق واقع ہو جاتى ہے اس پر سب علماء كا اتفاق ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 22034 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
جب خاوند طلاق كو ايك يا كئى الفاظ ميں تكرار سے كہتے ہوئے: تجھے تين يا چھ طلاق، يا پھر وہ كہے: تجھے طلاق تجھے طلاق، تين يا چھ بار تو راجح قول كے مطابق يہ ايك طلاق واقع ہو گى، اس ليے وہ عدت كے دوران اپنى بيوى سے رجوع كرنے كا حق ركھتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ يہ طلاق پہلى يا دوسرى ہو.
اس بنا پر اگر آپ كى طلاق شديد غضب ميں تھى جس نے تمہيں اس طلاق پر ابھارا تھا تو يہ طلاق واقع نہيں ہوئى، اور اگر تھوڑے غصہ كى حالت ميں تھى يا درميانے غصہ كى حالت ميں تو يہ ايك طلاق واقع ہوئى ہے.
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى زبان كو طلاق جيسے الفاظ سے غصہ كى حالت ميں بھى اور خوشى كى حالت ميں بھى محفوظ ركھيں، كيونكہ طلاق غصہ ٹھنڈا كرنے يا پھر تفريح اور كھيل كے ليے مشروع نہيں كى گئى.اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى اطاعت اور خوشى و رضامندى كے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .