الحمد للہ.
سوال ميں مقصود قصہ وہ ہے جسے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں:
" ايك اندھے كى لونڈى تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.
راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور حركت كرتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4361 ).
سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب ميں اس قصہ كے صحيح ہونے كى بيان كيا جا چكا ہے، اور يہ بھى بيان ہوا ہے كہ يہ كئى ايك الفاظ اور واقعات كے ساتھ مروى ہے جو سب اس حادثہ كے واقع ہونے پر دلالت كرتے ہيں باوجود اس كے كہ بعض جملے اور عبارات ميں تردد ہے.
اور اس عورت كا قتل اس ليے نہيں كہ وہ ذمى تھى بلكہ اس ليے قتل كى گئى كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرتى اور سب و شتم كرتى تھى، تو اس بنا پر وہ قتل كى مستحق ٹھرى، اور اگرچہ وہ مسلمان بھى ہوتى تو اس سب و شتم كى بنا پر كافر ہو كر بھى قتل كى مستحق تھى.
صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے اور سب و شتم كرنے والے كو قتل كرنے كى دليل اور اس كے خون كى كوئى قدر و قيمت نہيں كى دليل يہ ہے اگرچہ وہ مسلمان بھى ہو تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا اور آپ كى توہين كرنا يہ اتداد ہے يعنى اس سے مرتد ہو جاتا ہے اس بنا پر وہ قتل ہو گا، ابن بطال كہتے ہيں كہ بغير توبہ كرائے ہى اسے قتل كيا جائيگا.
ديكھيں: سبل السلام ( 3 / 501 ).
اس نابينا شخص كا اس عورت ـ جو قتل كى مستحق تھى ـ كو قتل كرنے والے قصہ ميں حكمران اور امام كى اجازت كے بغير قتل كرنے كا جو اشكال پيدا ہوتا ہے اس ميں ہم شيخ الاسلام كا جواب نقل كر چكے ہيں، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس قصہ ميں مسلمانوں كے اہل كتاب كے ساتھ عدل كى بھى دليل پائى جاتى ہے جو ان كے ساتھ كيا جاتا تھا، اور جسے شريعت جہانوں كے ليے رحمت بنا كر لائى، معاہدہ كرنے والے يہوديوں كے حقوق محفوظ ہيں اور ان كا خيال ركھا جاتا ہے، اور كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ انہيں تكليف اور اذيت ديں، اسى ليے جب لوگوں نے يہودى عورت كو مقتول پايا تو اس كا معاملہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك لے كر گئے، جنہوں نے انہيں معاہدہ اور امان دے ركھى تھى، اور ان سے جزيہ نہيں ليتے تھے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غضبناك ہوئے اور مسلمانوں كو اللہ كى قسم دى كہ وہ ايسا عمل كرنے والوں كو سامنے لائيں، تا كہ وہ اس كى سزا ديكھيں، اور اس كے معاملے كا فيصلہ كريں، ليكن جب انہيں معلوم ہوا كہ اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور سب و شتم كر كے معاہدہ بار بار توڑا تو وہ سب حقوق سے محروم ہو گئى، اور اس حدقتل كى مستحق ٹھرى جو شريعت ہر اس شخص پر لاگو كرتى ہے جو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرے، چاہے وہ ذمى ہو يا مسلمان، يا معاہدہ والا، كيونكہ انبياء كرام كى توہين كرنا اور ان پر سب و شتم كرنا اللہ كے ساتھ كفر ہے، اور ہر حرمت اور حق اور معاہدہ كو توڑ ديتا اور ختم كر ديتا ہے، اور يہ عظيم خيانت ہے جو شديد ترين سزا كى مستوجب ہے.
اہل ذمہ كے احكام ديكھنے كے ليے آپ ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 22809 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس قصہ كى صحيح توجيہ اور فہم سليم يہى ہے، نہ كہ وہ جو حقد و بغض سے بھرے ہوئے اور شريعت كے حكم ميں طعن و تشنيع كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلاف باتيں بنانے والے نشر كرتے پھرتے ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كو اس طريقہ سے قتل نہيں كيا، ليكن جب وہ معاہدہ توڑنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے كى پاداش ميں بطور حد قتل كى مستحق ٹھرى تو اسے قتل كرنے والے سے قصاص نہيں ليا گيا، وہ اسے بہت زيادہ اور بار بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم سنا چكى تھى حتى كہ وہ اس كے روكنے اور منع كرنے كے باوجود نہيں ركى حتى كہ اس كے صبر كا پيمانہ لبريز ہو گيا اور وہ صبر نہ كر سكا اور اس نے اپنى دين اور نبى كے سلسلہ ميں اذيت دينے والى آواز كو خاموش كر كے ركھ ديا.
اور ناحق ذمى كو قتل كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور اس ميں شديد وعيد آئى ہے، جيسا كہ صحبح بخارى ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو قتل كيا وہ جنت كى خوشبو نہيں پائيگا، حالانكہ اس كى خوشبو چاليس برس كى مسافت سے پائى جاتى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3166 ) امام بخارى نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں " بغير كسى جرم كے معاہد كو قتل كرنا " كا باب باندھا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
امام بخارى نے باب كے عنوان ميں اسى طرح قيد لگائى ہے حديث ميں قيد نہيں، ليكن يہ شرعى قواعد اور اصول سے حاصل كردہ ہے، اور ابو معاويہ كى آنے والى حديث ميں بيان ہے جس ميں " بغير حق " كے لفظ ذكر ہوئے ہيں، اور نسائى اور ابو داود كى حديث جو ابو بكرہ سے مروى ہے اس ميں يہ الفاظ ہيں:
" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو بغير حلال كے قتل كيا اللہ تعالى اس پر جنت كو حرام كر ديتا ہے " اھـ
واللہ اعلم .