سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا جنت میں حمل اور زچگی ہوگی؟

111777

تاریخ اشاعت : 11-05-2015

مشاہدات : 20027

سوال

ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ جنت میں بیویاں ہونگی، تو کیا جنت میں حمل اور زچگی بھی ہوگی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر کسی بندے  کی جنت میں یہ خواہش ہوئی کہ  اسکی اولاد ہو تو اللہ تعالی اسکی یہ خواہش  بھی پوری فرمائے گا، اس بارے میں انہوں نے ترمذی: (2563) کی روایت  کو دلیل بنایا ہے،چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (مؤمن جنت میں جب اولاد چاہے گا تو حمل، زچگی، اور پرورش  اسی وقت ہوجائے گی، جیسے وہ چاہے گا) البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع :(6649) میں  صحیح کہا ہے۔

حدیث کے الفاظ: " حمل، زچگی، اور پرورش  " یعنی حمل ٹھہرنا، مدت مکمل ہونے کے بعد زچگی اور اس کے بعد 33 سالہ کڑیل نوجوان  ہوجائے گا۔

" جیسے وہ چاہے گا " یعنی اسے لڑکا چاہیے یا لڑکی جو چاہے گا وہی ہوگا۔

بہت سے اہل علم اسی موقف کے قائل ہیں۔

جبکہ دیگر کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ جنت میں جماع تو ہوگا لیکن  اس کی وجہ سے اولاد نہیں ہوگی، یہ موقف طاؤس، مجاہد، اور ابراہیم  نخعی سے منقول ہے۔

چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو رزین عقیلی   سے روایت کیا گیا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جنتیوں کے ہاں اولاد نہیں ہوگی)"
اس حدیث کی طرف امام بخاری نے اشارہ کیا ہے، اور امام احمد : (15773) نے ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث میں ذکر کیا ہے، اور مسند احمد  میں یہ بھی اضافہ ہے کہ:  (نیک مرد و خواتین  جنت میں ایسے ہی لذت پائیں گے، جیسے تم  دنیا میں لذت پاتے ہو، اور وہ تم سے لذت حاصل کرتی ہیں، لیکن وہاں اولاد نہیں ہوگی )

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اس حدیث میں تجلیاتِ نبوت کے ایسےاثرات محسوس ہوتے ہیں جس سے حدیث کی صحت  کا ادراک کیا جا سکتا ہے"
لیکن البانی نے اس حدیث کو  "ظلا ل الجنۃ" میں ضعیف قرار دیا ہے۔
اور شیخ شعیب الارناؤوط کہتے ہیں کہ: "اس حدیث کی سند میں مسلسل مجہول راوی ہیں"
تاہم حدیث میں ولادت نہ ہونے کی بالکل واضح صراحت ہے، لیکن اسکے صحیح ہونے میں اختلاف ہے۔

جبکہ مذکورہ بالا ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث (مؤمن جنت میں جب اولاد چاہے گا تو حمل، زچگی، اور پرورش  اسی وقت ہوجائے گی، جیسے وہ چاہے گا)  کے بارے میں یہ جواب دیا گیا ہے کہ: یہ روایت ثابت نہیں ہے، چنانچہ اسی لئے ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس کی سند صحیح  کی شرائط پر پوری اترتی ہے، لیکن یہ حدیث بہت کمزور ہے"
"حادی الارواح" (ص 213)

اسی طرح انکا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث کیلئے اچھی سے اچھی  سند ترمذی کی سند ہے، اور خود امام ترمذی نے اس کے "غریب" ہونے کا حکم لگایا  ہے ، یہ روایت ابو صدیق ناجی  کی  سند سے ہی  معروف ہے، اور اسکے الفاظ میں بھی اضطراب  پایا جاتا ہے" انتہی

امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (اگر کوئی مؤمن جنت میں اولاد چاہے گا تو اسی وقت ہو جائے گی جیسے وہ چاہے گا) کے متعلق کہتے ہیں کہ: "مؤمن کو اولاد کی چاہت ہی نہیں ہوگی"
امام اسحاق بن راہویہ کی بیان کردہ روایت میں لفظِ "اذا"بمعنی "لو"ہے، گویا" لو"  کی  لفظ "اذا " کے ذریعے سے تعبیر  کی گئی ہےجبکہ"لو"  کسی فرضی چیز کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ نے بہت سی ایسی وجوہات ذکر کی ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ بات راجح قرار پاتی ہے کہ جنت میں ولادت  نہیں ہوگی۔

1- ابن رزین  رضی اللہ عنہ کی حدیث

2- فرمانِ باری تعالی:
وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌان کیلئے جنت میں پاک بیویاں ہونگی [البقرة : 25]، اور اس سے یہ مراد ہے کہ حیض ، نفاس، اور گندگی سے پاک ہونگی۔
چنانچہ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں:  "حیض، پاخانہ، پیشاب، ریٹھ، تھوک، منی، اور زچگی سے پاک ہونگی"

3- اللہ تعالی نے بچوں کی پیدائش حیض اور منی کیساتھ منسلک کی ہے، چنانچہ اگر جنت میں بھی عورتیں بچے پیدا کریں تو حیض اور منی کا خروج نہیں رک سکتا۔

4- صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (جنت میں  جگہ باقی رہے گی، اور  اللہ تعالی اس خالی جگہ کیلئے ایک مخلوق پیدا فرما کر انہیں جنت کے خالی حصے میں آباد کریگا) مسلم: (5085)، چنانچہ اگر جنت میں  ولادت کا سلسلہ جاری ہوتا تو  جنتیوں کی اولاد اس خالی جگہ کی حقدار ہوتی،  اور ان کا حق اس پر  دوسروں سے زیادہ بھی ہوتا۔

5- اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ جو لوگ ایمان لائے، اور انکی اولاد بھی ایمان کیساتھ انہی کے نقش قدم پر چلی  تو ہم انہیں ، انکی اولاد سے ملا دینگے۔[الطور : 21]، یہاں اللہ تعالی نے یہ بتلایا ہے کہ  اللہ تعالی انکی دنیاوی اولاد سے اُنہیں ملا دے گا، اور اگر جنت میں انکی کوئی اور اولاد بھی پیدا ہوتی ، تو اللہ تعالی انکا ذکر بھی فرماتا، جیسے  انکی دنیاوی اولاد کا تذکرہ فرمایا ہے، کیونکہ  جنتی اولاد بھی اسی طرح آنکھوں کی  ٹھنڈک کی باعث ہے، جیسے دنیاوی اولاد ہے۔

6- جنت میں ولادت  کی دو ہی صورتیں ہیں: کہ ولادت ہمیشہ  جاری و ساری رہے گی، یا ایک مدت تک ہوگی پھر اس کے بعد ختم ہو جائے گی، اور ہر دوصورت میں ولادت ممنوع تصور ہوگی؛ کیونکہ  اگر پہلی صورت ہو  تو جنت میں  ان گنت اور لامتناہی لوگ جمع ہو جائیں گے، اور دوسری صورت میں یہ لازم آئے گا کہ ولادت منقطع ہونے کی وجہ سے اہل جنت ایک نعمت  و مسرت سے محروم ہو جائیں گے، جو کہ ناممکن ہے، اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ  افزائش  نسل کیساتھ کچھ نسل فوت بھی ہو جائے گی، اور اس کے بعد دوسری نسل آئے گی، کیونکہ وہاں پر موت ہی نہیں ہوگی۔

7- جنت میں انسان  کی نشو ونما ایسے نہیں ہوگی جیسے دنیا میں ہوتی ہے، چنانچہ نہ تو بچے  بڑے ہونگے، اور جسامت بچوں والی ہی رہے گی، اور نہ ہی بڑوں کی عمریں بڑھیں گی، بلکہ یہ بچے ہمیشہ چھوٹے  ہی رہیں گے، انکی جسامت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، جبکہ بڑے لوگ ہمیشہ 33 سالہ  کڑیل نوجوان  رہیں  گے، ان میں بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، چنانچہ اگر جنت میں پیدائش  کا تصور ہوتا تو  اس بچے کے بڑے ہونے کی ضرورت لازمی پیش آتی  تا کہ وہ بھی بڑا ہو کر نوجوان بنے، اور سب جانتے ہیں ہیں کہ بچپن میں فوت شدہ  بچوں کو بھی  بغیر نشو و نما کے یک لخت 33 سالہ کڑیل نوجوان  بنا دیا جائے گا۔

یہ سب باتیں ذکر کرنے کے بعد ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جنت افزائش نسل کی جگہ نہیں ہے، بلکہ دائمی اور سرمدی  رہنے کا مقام ہے، اس میں رہنے والا کبھی نہیں مرے گا کہ اس کونسل کی ضرورت پڑے" انتہی
"حادی الأرواح" (1/173)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب