الحمد للہ.
ایک شخص نیند سے بیدار ہونے پر گیلا پن محسوس کرتا ہے تو اس کی تین حالتیں ہیں:
1- اس شخص کو منی کی خصوصیات کی وجہ معلوم ہوکہ یہ منی ہے، جیسے کہ منی کی بو کے متعلق فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ اس کی بو گوندھے ہوئے آٹے یا کھجور کے زر دانے جیسے ہوتی ہے، اور اگر منی خشک ہو جائے تو اس کی بو انڈے کی سفیدی جیسی ہوتی ہے، لہذا اگر گیلا پن منی ہے تو پھر غسل کرنا واجب ہو گا، تاہم کپڑے کو دھونا واجب نہیں ہے؛ کیونکہ علمائے کرام کے راجح قول کے مطابق منی پاک ہے۔
2- اس شخص کو یہ علم ہو کہ گیلا پن مذی کی وجہ سے ہے، تو ایسی صورت میں غسل کرنا واجب نہیں ہے، البتہ جسم یا کپڑے پر جہاں مذی لگی ہوئی ہے اسے دھونا یا کپڑے پر چھینٹے مارنا واجب ہے؛ کیونکہ مذی نجس ہوتی ہے۔
3- انسان کو اس کے بارے میں علم نہ ہو کہ یہ منی ہے یا مذی؟ تو اس کے بارے میں کچھ تفصیل ہے:
اگر سونے سے پہلے کوئی ایسی سرگرمی تھی جس کی وجہ سے شہوت انگیخت ہو جائے اور مذی خارج ہونے کا اندیشہ ہو ، مثلاً: خیالات ایسے آئیں یا ایسی چیزوں پر نظر پڑے تو کپڑوں میں پایا جانے والا گیلا پن مذی کا ہو گا۔
اور اگر سونے سے پہلے ایسی کوئی سر گرمی نہیں تھی جس کی وجہ سے مذی خارج ہو تو پھر ایسی صورت میں احتیاط پر عمل کرے، لہذا منی اور مذی دونوں کا حکم مد نظر رکھتے ہوئے غسل کرے، اور کپڑوں پر لگے ہوئے مادے کو دھو ڈالے اور غسل کرتے ہوئے ترتیب وار وضو بھی کرے۔
"مطالب اولی النهى" (1/162) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص نیند سے بیدار ہو کر جسم ، بدن یا بستر پر گیلا پن محسوس کرتا ہے ۔۔۔ تو اگر اس کے منی ہونے کا یقین ہو جائے تو اس کیلیے غسل کرنا واجب ہے، چاہے اسے خواب آنا یاد ہو یا نہ ہو، اس حکم کے بارے میں موفق رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہمیں اس میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں ہے"، منی آلودہ کپڑے دھونا [لازمی] نہیں ہے؛ کیونکہ منی پاک ہوتی ہے۔
منی اگر تر ہو تو اس کی بو گوندھے ہوئے آٹے یا کھجور کے زر دانے کے جیسی ہوتی ہے، اور اگر منی خشک ہو جائے تو اس کی بو انڈے کی سفیدی جیسی ہوتی ہے۔
اگر اسے یہ یقین ہو جائے کہ یہ منی نہیں ہے تو پھر لازمی طور پر اپنے کپڑے ، بدن اور جہاں بھی وہ مادہ لگا ہوا ہے اسے دھونا پڑے گا کیونکہ مذی نجس ہوتی ہے۔
اور اگر اسے منی یا مذی کسی کے بارے میں بھی یقین نہ ہو تو سونے سے پہلے اگر سردی، بد نظری، بد خیالی یا بیوی سے رومانس کیا ہو تو پھر جہاں جہاں وہ مادہ لگا ہوا ہے اسے دھو ڈالے؛ کیونکہ اب اس کے مذی ہونے کا رجحان زیادہ ہے؛ اس لیے کہ مذی خارج ہونے کا سبب نیند سے پہلے موجود ہے اس لیے ہم اس مادے کے متعلق مذی کے گمان کو منی کا یقینی حکم دے دیں گے، بالکل اسی طرح کہ اگر نیند کے دوران خواب آیا ہوتا تو پھر ہم اس پر غسل واجب کر دیتے کیونکہ منی خارج ہونے کا سبب موجود ہے۔
اور اگر نیند سے پہلے [مذی خارج ہونے کا ]سبب نہ ہو لیکن پھر بھی اپنے کپڑے یا بدن یا بستر پر گیلا پن محسوس کرے تو پھر وہ لازمی طور پر غسل کرے گا اور ترتیب کے ساتھ وضو کرے گا نیز جہاں جہاں وہ مادہ لگا ہوا ہے اسے دھو لے گا۔[اس حکم کے ساتھ] "شرح الاقناع" میں "احتیاط" کی قید بھی ہے، انہوں نے اس کے بعد یہ بھی کہا ہے کہ: غسل کا حکم شک کو وجوب کی بنیاد بنا کر نہیں دیا گیا بلکہ احتیاط برتتے ہوئے لازمی طور پر غسل کرنے کا حکم دیا ہے تا کہ [اس مسئلے میں]کسی قسم کا کوئی اختلاف واقع نہ ہو اور انسان اپنی ذمہ داری سے بری ہو جائے، بالکل ایسے ہی کہ ایک شخص کسی دن کی کوئی ایک نماز پڑھنا بھول گیا اور پھر اسے وہ نماز بھی بھول گئی، اس لیے کہ اس مسئلے میں گیلا پن منی یا مذی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، لیکن ان دونوں میں سے کیا ہے ؟ اس کی ترجیح کیلیے کوئی قرینہ نہیں ہے، لہذا ایسے شخص پر واجب امور اسی وقت ادا ہوں گے جیسے کہ ہم نے پہلے بیان کر دیا ہے۔" کچھ اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
مزید کیلیے سوال نمبر: (22705) کا جواب ملاحظہ کریں۔
مزید آپ نے نماز، طہارت اور لڑکیوں سے تعلقات کے بارے میں پوچھا ہے وہ آپ کو ویب سائٹ پر مل جائے گا۔
آپ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کیلیے نصائح اس سوال (22309) کے جواب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق دے ہماری مدد فرمائے اور ہمیں سیدھے راستے پر گامزن رکھے۔
واللہ اعلم.