الحمد للہ.
اول:
آپ كے والد نماز ادا نہ كرنا، اور وعظ و نصيحت كرنے كے باوجود نماز شروع نہ كرنا عقد نكاح كو فسخ كرنا واجب كرتا ہے اس ليے نماز كى پابند بيوياں اس كے ليے حلال نہيں، اور نہ ہى وہ ان بيويوں كے ليے حلال ہے، اور آپ پر ضرورى ہے كہ آپ جو طريقہ بھى ميسر ہو اس نكاح كو فسخ كرنے كى كوشش كريں.
اگر تو آپ كے ملك ميں ترك نماز فسخ نكاح كا موجب شمار كيا جاتا ہے تو آپ اس سبب كو نكاح فسخ كرنے كے ليے پيش كريں، اور اگر نكاح فسخ كرنے كا موجب شمار نہيں كيا جاتا تو آپ اپنى والدہ اور دوسرى بيوى كو ايك ہى گھر ميں جمع كرنے ميں جو نقصان ہو رہا ہے اس كى وجہ سے اس سے طلاق حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور اس خاوند نے خود ہى اس بيوى كى زندگى اور اس كى معيشت كو ضرر ديا ہے، اہم يہ ہے كہ تمہارے ليے حلال نہيں كہ تم اسے اپنى والدہ كے قريب آنے دو، اور نہ ہى اس كو اس سے ہم بسترى كرنے دو، الا يہ كہ اگر وہ اپنے دين كى طرف واپس آكر نماز كى پابندى كرنا شروع كر دے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو خاوند نماز ادا نہيں كرتا وہ كافر ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان ( كافروں ) كے درميان جو عہد ہے وہ نماز ہے چنانچہ جو نماز ترك كرے اس نے كفر كيا "
مسند احمد اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بندے اور شرك و كفر كے درميان نماز ترك كرنا ہے "
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ عنہ روايت كيا ہے.
چاہے وہ اس كى فرضيت كا انكار كرتا ہو يا وجوب كا انكار نہ كرتا ہو، ليكن اگر وہ اس كى فرضيت كا انكار كرتا ہے تو سب مسلمانوں كے اجماع كے مطابق كافر ہے، ليكن اگر وہ اسے سستى و كاہلى كى وجہ سے ترك كرتا ہے اور اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا تو علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق دونوں مذكور احاديث اور اس موضوع كے متعلق دوسرى احاديث كى بنا پر كافر ہے .
سوال كرنے والى كے ليے مذكورہ خاوند كے پاس واپس جانا جائز نہيں، حتى كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں توبہ نہ كر لے اور اپنى نماز پنجگانہ كى پابندى نہ كرنى شروع كر دے، اللہ اسے ہدايت كى توفيق دے اور اس پر توبہ كرنے كا احسان كرے.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 10 / 269 - 270 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وہ شخص جو نماز ادا نہيں كرتا چاہے وہ نشہ كرتا ہو يا نشہ نہ كرے كافر اور يہوديوں اور عيسائيوں كى طرح يا اس سے بھى شديد كافر ہے، كيونكہ يہود و نصارى كو تو ـ مثلا ـ جزيہ دينے كى صورت ميں ان كے دين پر ركھا جا سكتا ہے، ليكن جو مسلمان ہو كر بے نماز ہو تو يہ شخص مرتد ہے اس كو اس پر برقرار ركھنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كا زندہ رہنا جائز ہے، بلكہ اسے نماز كى ادائيگى كا حكم ديا جائيگا، اگر تو وہ نماز ادا كرنے لگے تو ٹھيك، وگرنہ اس كو مرتد ہونے كى حد ميں قتل كرنا واجب ہے، يہ مرتد كے احكام ہيں جيسا كہ علماء رحمہ اللہ نے اپنى كتب ميں بيان كيے ہيں.
اور اس كى بيوى پر واجب ہے كہ وہ اب اس سے عليحدگى اختيار كر لے، اور اس شخص كے ليے اپنى بيوى سے جماع كرنا حلال نہيں، اور نہ ہى اس كى بيوى كے ليے حلال ہے كہ اپنے اس خاوند كو اپنے سے ہم بسترى و جماع كرنے دے، بلكہ بوس و كنار اور معانقہ بھى نہ كرنے دے، اور نہ ہى اس سے خلوت كرے، جب تك وہ اسلام كى طرف واپس نہيں پلٹ جاتا اسے چاہيے كہ وہ اس سے عليحدگى اختيار كرے.
اور اس عورت كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اگر وہ اپنے آپ كے قريب آنے دے گى تو بالكل ايسے ہى ہے جيسے اس نے كسى اجنبى شخص كو اپنے قريب آنے ديا.
ہم اللہ تعالى سے سلامتى و عافيت كے طلبگار ہيں، چنانچہ اس عورت پر واجب ہے كہ وہ اپنے بے نماز خاوند سے اس طرح دور بھاگے جس طرح شير سے بھاگا جاتا ہے....
اور اس شخص كو عدت گزرنے تك مہلت دى جائيگى اگر تو عدت گزرنے سے قبل وہ اسلام كى طرف واپس پلٹ آيا تو وہ اس كى بيوى ہے، اور اگر واپس نہيں پلٹتا تو ان كے درميان عقد نكاح اس وقت سے فسخ ہو جائيگا جب سے وہ مرتد ہوا ہے.
اور بعض علماء كرام كى رائے ہے كہ اگر وہ بغير شادى كے باقى رہے اور اس كا خاوند اسلام كى طرف واپس پلٹ آئے چاہے عدت گزرنے كے بعد ہى اور وہ عورت اپنے خاوند ميں ركھتى ہو تو وہ واپس جا سكتى ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں، يہ تو اس كى بيوى كى مناسبت سے ہے.
اور رہى اس شخص كى حالت كى مناسبت: تو اگر وہ اسى حالت ميں فوت ہو جائے تو اسے غسل دينا يا كفن پہنانا يا اس كى نماز جنازہ ادا كرنا، يا اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كرنا، يا اس كے ليے بخشش و رحمت كى دعا كرنا، يا اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا، يا اس كى طرف سے حج كرنا حرام ہو گا؛ كيونكہ وہ كافر ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
نبى اور دوسرے مسلمانوں كو جائز نہيں كہ مشركين كے ليے مغفرت كى دعا مانگيں اگرچہ وہ ان كے رشتہ دار ہى ہوں اس امر كے ظاہر ہو جانے كے بعد كہ يہ لوگ جہنمى ہيں التوبۃ ( 113 ).
ہم اس سے يہ مراد ليتے ہيں كہ: جو شخص بے نماز ہے نہ تو مسجد ميں نماز ادا كرتا ہے اور نہ ہى گھر ميں، ليكن جو شخص گھر ميں نماز ادا كرتا ہے وہ تو گنہگار ہے اور اجب وہ اس پر قائم رہے تو وہ فاسقين ميں سے ہو گا، ليكن كافر نہيں.
بلكہ ہم تو اس سے وہ شخص مراد ليتے ہيں جو بالكل نماز ادا ہى نہيں كرتا، اس كا حكم وہى ہے جو ہم نے ذكر كيا ہے.
اور اس كى بيوى كو ميرى نصيحت ہے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے اور اپنے ميكے چلى جائے حتى كہ اللہ تعالى اسے اسلام كى ہدايت نصيب كر دے، اور اللہ عزوجل اسے ترك نماز پر مجبور نہيں كر رہا كيونكہ يہ اختيارى امر اس كو اس ميں اختيار حاصل ہے، جيسا كہ اس كو بازار جانے يا مسجد جانے يا كسى اور جگہ جانے كا اختيار حاصل ہے، تو اسے نماز ادا كرنے يا ادا نہ كرنے كا بھى اختيار ہے.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 77 ) سوال نمبر ( 2 ).
دوم:
حتى كہ اگر وہ نماز ادا بھى كرتا ہو تو اس كے ليے ايك ہى كمرہ ميں دو بيويوں كو اكٹھا ركھنا جائز نہيں، اور ہر بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ اسے مستقل طور پر باقى بيويوں سے عليحدہ رہائش مہيا كرے.
اور اگر وہ اس پر اصرار كرتا ہے تو آپ كو حق حاصل ہے كہ آپ اپنى والدہ كو اس رہائش سے نكال كر والدہ سے ضرر كو كم كريں، اور والد كو پر دباؤ ڈال سكيں كہ وہ ہر بيوى كو اس كا وہ حق ادا كرے جو اللہ تعالى نے اس پر واجب كيا ہے.
مزيد تفصيل اور اہم معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 7653 ) اور ( 96455 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں، ان دونوں جوابات ميں بيوى كے ليے مستقل طور پر عليحدہ رہائش مہيا كرنے كا حق اور دوسرى اہم تفصيلات بيان كى گئى ہيں.
واللہ اعلم .