سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مساجد سے بدعتى كو نكالنے كا حكم

112062

تاریخ اشاعت : 01-11-2009

مشاہدات : 7300

سوال

ہمارى مسجد ميں جو لوگ اذان ديتے اور نماز كراتے اور خطبہ جمعہ ديتے ہيں وہ بہت سارى بدعات كا ارتكاب بھى كرتے ہيں، كيا ہم انہيں طاقت كے زور پر مسجد سے نكال سكتے ہيں ہم نے انہيں كئى بار نصيحت كى ہے كہ وہ بدعات كو ترك كر ديں ليكن وہ ترك نہيں كرتے، كيا انہيں بزور بازو نكال ديا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كو اللہ كےگھر مسجد سے نكالنا جائز نہيں چاہے وہ بدعتى ہى ہو، كيونكہ يہ گھر مسجديں اللہ كا ذكر نماز قائم كرنے اور اللہ كى عبادت بجا لانے كے ليے بنائى گئى ہيں، اور بدعتى شخص اللہ كى اطاعت كرنے پر مشكور ہے، اور ہر وہ بھلائى جو خالصتا اللہ كے ليے كرتا ہے اسے اس كا اجروثواب حاصل ہو گا، ليكن اسے اس كى بدعت كا گناہ ضرور ہو گا اس ليے كسى بھى شخص كے ليے كسى دوسرے كو اللہ كى عبادت اور اس كى اطاعت كرنے سے روكنا جائز نہيں.

بلكہ اللہ كى عبادت و اطاعت ميں وہ دوسرے كى معاونت كرے، اور اسے مسلمانوں كے ساتھ نماز باجماعت ادا كرنے كى ترغيب دلائے، ہو سكتا ہے وہ سنت كو سنے اور دين ميں بدعات كى ايجاد سے باز آ جائے.

جبكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كچھ مشركوں كو مسجد ميں داخل كرنےكى اجازت بھى دى تھى، جيسا لكہ ثمامہ بن اثال رضى اللہ عنہ كا واقعہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں مسجد كے ستون كے ساتھ باندھنے كا حكم ديا يہ اس وقت كا واقعہ ہے جبكہ ابھى وہ مسلمان نہيں ہوئے تھے، حتى كہ انہيں تيسرے دن كھول ديا گيا اور وہ مسلمان ہو گئے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كہنے لگے:

" ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اللہ كے رسول ہيں "

اے محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اللہ كى قسم ميرے نزديك روئے زمين پر آپ كے چہرے سے برا اور مبغوض ترين چہرہ كوئى نہ تھا، ليكن اب مجھے آپ كا چہرہ سب سے محبوب چہرہ لگنے لگا ہے.

اللہ كى قسم ميرے نزديك آپ كے دين سے برا اور مبغوض ترين كوئى اور دين نہ تھا، ليكن اب مجھے يہ دين سب سے زيادہ محبوب ہے.

اللہ كى قسم آپ كے شہر اور علاقے سے برا كوئى اور علاقہ نہيں لگتا تھا ليكن اب آپ كا شہر ميرے نزديك محبوب ترين شہر ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 462 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1764 ).

تو ديكھيں كہ ثمامہ كا مسجد ميں رہنا ان كى ہدايت اور اسلام كا باعث بنا رضى اللہ عنہ؛ تو پھر وہ مسلمان جو مسجد كو آباد كرتے ہيں ان كى حالت كيا ہو گى، وہاں اذان ديتے اور خطبہ جمعہ بھى جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے ؟!

اور جب كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ جنگ تبوك ميں نہ جا سكے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے پيچھے رہ گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ساتھ بائيكاٹ كا حكم دے ديا اور لوگوں كو حكم ديا كہ وہ ان كے ساتھ بات چيت مت كريں، حتى كہ انہيں بيوى كو بھى چھوڑنے كا حكم دے ديا، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں مسلمانوں كے ساتھ جماعت ميں حاضر ہونے سے منع نہيں فرمايا اور نہ ہى ان كے ساتھ نماز ادا كرنے سے روكا.

كعب بن مالك رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں:

" اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسلمانوں كو ہمارے ساتھ كلام كرنے سے بھى منع فرما ديا جو تين غزوہ سے پيچھے رہ گئے تھے.

كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" تو لوگ ہم سے عليحدہ ہو گئے اور ہمارے ليے بدل گئے حتى كہ ميرے دل ميں زمين بدل كر رہ گئى اور يہ وہ زمين نہيں رہى جسے ميں جانتا تھا، تو پچاس راتيں ہم نے اسى طرح بسر كيں "

اور ميرے دونوں ساتھى گھر ميں بيٹھ گئے اور روتے رہتے ليكن ميں ان ميں سب سے زيادہ طاقتور اور جوان تھا اور ميں باہر نكل كر مسجد ميں ان كے ساتھ نماز ادا كرتا، اور بازار بھى گھومتا ليكن ميرے ساتھ كوئى بھى كلام نہ كرتا، اور ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بھى آتا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز كے بعد اپنى جگہ ہى بيٹھے ہوتے اور ميں انہيں سلام كہتا، اور دل ميں كہتا آيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سلام كے جواب ميں ہونٹوں كو حركت دى ہے يا نہيں پھر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قريب نماز ادا كرتا اور چھورى چھپے ديكھتا جب ميں نماز ميں ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مجھے ديكھتے،اور جب ميں آپ كى طرف متوجہ ہوتا تو آپ ميرى طرف سے اعراض كر ليتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2757 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2769 ).

اور جب خوارج ظاہر ہوئے اور انہوں نے بدعات كرنا شروع كيں اور اپنى فكر اور سوچ سے مسلمانوں كى جماعت ميں تفرقہ ڈال ديا، اور انہوں جو كچھ بھى ايجاد كيا ليكن اس كے باوجود كسى ايك صحابى نے بھى انہيں مساجد سے نكالنے اور دور كرنے كا حكم نہ ديا، كيونكہ يہ مسجديں اللہ كا گھر ہيں جہاں اللہ كى ذكر بلند كرنے اور اس كا نام بلند ہوتا ہے، اس ليے كسى كو بھى يہ حق نہيں كہ وہ اس سے منع كرے جس كا اللہ نے حكم ديا ہے.

على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ نے خوارج كے متعلق كہا تھا:

" ان كے ہم پر تين حق ہيں، جب تك وہ ہم سے لڑائى اور قتال نہيں كرتے ہم ان سے لڑائى و قتال نہ كريں، اور انہيں اللہ كى مسجدوں ميں اللہ كا ذكر كرنے سے منع نہ كريں، اور انہيں مال فئ سے محروم مت كريں جب تك ان كے ہاتھ ہمارے ہاتھوں كے ساتھ ہيں "

اسے ابن ابى شيبہ نے مصنف ابن ابى شيبہ ميں حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے ديكھيں مصنف ابن ابى شيبۃ ( 7 / 562 ).

آپ كے حق ميں مشروع يہ ہے كہ آپ ان كے ساتھ مساجد ميں اچھا سلوك كريں، اور ان كے ليے ہر طريقہ سے سنت بيان كرنے كى كوشش كريں، اور اہل علم سے دريافت كرنے اور اس كے يقينى بدعت ثابت ہونے كے بعد اگر آپ لوگوں كے ليے انہيں ان بدعات سے روكنا ممكن ہو تو آپ كے ليے انہيں صرف اس بدعت سے منع كرنا جائز ہے، نہ كہ آپ انہيں بالكل ہى مسجد سے روك ديں، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر انہيں منع كرنے كے نتيجہ ميں مسلمانوں كے مابين اس بدعت سے بھى زيادہ خرابى و فساد نہ پيدا ہوتى ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس بنا پر جب شخص يا كسى گروہ ميں نيكى و برائى دونوں جمع ہوں اور وہ ان ميں فرق نہ كرتا ہو بلكہ يا تو وہ ان دونوں كو اكٹھا سرانجام ديتا ہو؛ يا پھر سب كو اكٹھا چھوڑ ديں تو ان كو نہ تو نيكى كا حكم دينا جائز ہے اور نہ ہى برائى سے روكنا؛ ( بلكہ ) ديكھا جائيگا كہ اگر تو اس ميں نيكى و معروف اكثر ہو، چاہے اس سے برائى كم لازم آتى ہو تو اسے اس برائى سے نہيں روكا جائيگا جس كے نتيجہ ميں اس سے بھى عظيم معروف و نيكى ختم ہوتى ہو؛ بلكہ اس حالت ميں اسے منع كرنا اللہ كى راہ سے روكنا اور ركاوٹ ڈالنا شمار ہو گا، اور اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت كے زوال اور نيكياں سرانجام دينا زائل كرنے كى سعى و كوشش شمار ہوگى.

ليكن اگر برائى غالب ہو تو اس سے روكا جائيگا؛ چاہے اس كے نتيجہ ميں اس سے چھوٹى نيكى فوت ہوتى ہو.

تو اس نيكى كا حكم دينا جو زائد برائى كا باعث بنے يہ برائى اور منكر امر اور اللہ اور اس كے رسول كى نافرمانى كى سعى كوشش شمار ہو گى.

اور اگر نيكى اور برائى برابر اور ايك دوسرے سے لازم و ملزوم ہوں تو نہ اس كا حكم ديا جائيگا اور نہ ہى روكا جائيگا چنانچہ بسا اوقات امر بالمعروف اور بسا اوقات نہى عن المنكر بہتر ہو گى؛ اور بسا اوقات نہ تو امر بالمعروف اور نہ ہى نہى عن المنكر صحيح ہوگى، وہ اس طرح كہ جب نيكى اور برائى دونوں ايك دوسرے كے ساتھ لازم و ملزوم ہوں، يہ معين اور واقعہ امور ميں ہيں، ليكن نوع كے اعتبار سے مطلقا نيكى كا حكم اور مطلقا برائى سے روكا جائيگا.

اور ايك ہى فاعل اور ايك ہى گروہ ميں اس كى نيكى كا حكم اور برائى سے روكا جائيگا، اور اس كے اچھے كام كى تعريف كى جائيگى اور برے كام كى مذمت ہو گى؛ وہ اس طرح كہ امر بالمعروف كى بنا پر اس سے اكثر فوت نہ ہو، يا پھر اس سے زيادہ برائى حاصل نہ ہوتى ہو، اور نہ ہى برائى سے روكنے ميں اس سے بھى برا كام حاصل ہوتا ہو، يا پھر اس سے زيادہ راجح نيكى فوت ہوتى ہو.

اور جب معاملہ مشتبہ ہو جائے تو مؤمن وضاحت طلب كرے حتى كہ اس كے ليے حق واضح ہو جائے؛ اس ليے اطاعت و فرمانبردارى علم و نيت كى صورت ميں سرانجام دے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 28 / 129 - 130 ) اور الاستقامۃ ( 2 / 217 - 218 ) بھى ديكھيں.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ہمارے ساتھ شيعہ ملازمين بھى ہيں كيا ہم ان كے سلام كا جواب ديں، اور اسى طرح ہم انہيں مسجد ميں كاغذ پر نماز ادا كرتے ديكھتے ہيں تو كيا انہيں مسجد سے نكال ديں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" آپ ان كے ساتھ وہى معاملہ كريں جو وہ آپ كے ساتھ كرتے ہيں، جب وہ سلام كريں تو آپ سلام كا جواب ديں، اور انہيں مسجد نكالنا اچھا نہيں، بلكہ ہو سكتا ہے ان ميں سے بعض تو عام افراد ميں شامل ہوتے ہوں جنہيں كچھ علم ہى نہ ہو، بلكہ ان كے علماء نے انہيں گمراہ كر ركھا ہو؛ لہذا آپ كے ليے لياقت و بہتر دعوت و تبليغ سے ان پر اثرانداز ہونا ممكن ہے اور لوگوں ميں سختى والا معاملہ كرنا صحيح نہيں.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہر معاملہ ميں نرمى و شفقت پسند فرماتا ہے، لہذا اگر اب آپ ان سے تصادم كى راہ اختيار كرتے ہوئے انہيں كہيں كہ: تم كاغذ پر سجدہ مت كرو، اور پتھر وغيرہ پر سجدہ مت كرو، اگر تو معاملہ يہى رك جائے اور وہ باز آ جائيں تو اچھا ہے.

ليكن وہ اور زيادہ كرينگے اور پھر تمہارى آپس ميں عداوت و دشمنى اور زيادہ ہو گى، اس ليے ميرى رائے تو يہ ہے كہ پہلے ان كو نصيحت كرنا ضرورى ہے، اور خاص كر عوام كو اور نصيحت كا معنى يہ نہيں كہ آپ ان كے مذہب پر حملہ آور ہوں اور ان كے باطل طريقہ پر حملے كريں، نہيں ايسا نہيں، بلكہ نصيحت يہ ہے كہ آپ ان كے ليے حق بيان كريں اور سنت كى وضاحت كريں، پھر اس كے بعد جب آپ ان كے ليے سنت بيان كريں تو مجھے پورا يقين ہے كہ اگر ان ميں حقيقى ايمان پايا جاتا ہے تو وہ اس حق كى طرف واپس آ كر اپنے باطل كو ترك كر ديں گے.

اگر يہ حاصل ہو تو يہى بہتر اور اچھا ہے، اور اگر ايسا نہ ہو تو آپ ان كے ساتھ وہى معاملہ كريں جو وہ آپ سے كرتے ہيں، ليكن انہيں مسجد سے نكالنے كا آپ كو حق حاصل نہيں "

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح لقاء نمبر ( 80 ) سوال نمبر ( 4 ).

آخر ميں ہم آپ كو متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ ہر بدعت كرنے والا شخص بدعتى نہيں ہوتا، جس طرح آپ اسے بدعت سمجھتے ہيں ليكن وہ حقيقت ميں ايسا نہيں، اور ان مسائل كا مرجع چھوٹے علماء اور طالب علم نہيں، يا جو سنت كى حماس ركھتے ہيں، كيونكہ يہ لوگ تو خود راہنمائى اور نصيحت و خيال كے محتاج ہيں مثلا:

ہو سكتا ہے وہ ركوع كے بعد سينہ پر ہاتھ ركھنا بدعت شمار كرتے ہوں! تو كيا ان پر بدعتى ہونے كا حكم لگايا جائيگا ؟! اور كيا وہ اس طرح كے لوگوں كو مسجد سے نكالنا چاہينگے؟! اور كيا وہ جانتے ہيں كہ ہمارے علماء اور اماموں ميں سے كون ايسا ـ ركوع كے بعد ہاتھ باندھتے ـ كرتے ہيں ؟!

ہم ان بھائيوں كا سنت پر غيرت كھانے پر شكر ادا كرتے ہيں، ليكن ہم يہ نہيں چاہتے كہ ان كا يہ حماس انہيں لوگوں پر حكم لگانے كا باعث بنے، اور نہ ہى لوگوں كو مسجد سے نكالنے كا باعث بنے، لوگوں كے مختلف جماعتيں بن جانے سے ہم كس قدر مشكلات ميں ہيں، تو كيا يہ قسم اور فرقے بننا اللہ كے گھروں ميں بھى منتقل ہو جائيگا ؟! ہم اميد كرتے ہيں كہ ايسا نہيں ہو گا، اور ہم ان سے اميد ركھتے ہيں كہ ـ جس طرح انہوں نے اس مسئلہ ميں ـ سوال كيا اور سمجھدارى كا ثبوت ديا ہے وہ اسى طرح كرينگے، اور ديكھيں علماء كا فتوى واضح ہے حتى كہ بدعتيوں كے متعلق مثلا شيعہ كے بارہ ميں، ليكن اس سے ہميں ان كو دعوت دينے اور اچھے طريقہ سے وعظ و نصيحت كرنے سے غافل نہيں ہونا چاہيے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب