جمعہ 3 رجب 1446 - 3 جنوری 2025
اردو

جو یہ سمجھے کہ اللہ کے علاوہ کائنات میں تصرفات کرنے والی کوئی اور ذات بھی ہے ، تو وہ کافر ہے۔

112126

تاریخ اشاعت : 14-01-2025

مشاہدات : 9

سوال

کوئی شخص یہ کہتا ہو کہ اس کائنات کے امور چلانے میں اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی شریک ہے تو کیا وہ شخص کافر شمار ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات کے تمام امور صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات چلا رہی ہے، وہ اکیلا ہی تمام مخلوقات کے امور سنوارتا ہے، مسلمانوں کا یہ عقیدہ ربوبیت میں شامل ہوتا ہے، اور ربوبیت یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ : اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں ہے، اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کوئی مالک ہے، نیز ان مخلوقات کے امور چلانے والا صرف اللہ تعالی ہی ہے، اگر کوئی شخص اس سے ہٹ کر اپنا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ کافر ہے۔

بتوں اور آستانوں کے پجاری مشرک لوگ اس بات کا اقرار کیا کرتے تھے کہ اس کائنات کے امور چلانے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے، اللہ تعالی نے ان کے اس عقیدے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنْ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنْ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
ترجمہ: آپ کہہ دیں: بتلاؤ تمہیں آسمان اور زمین سے کون رزق عطا کرتا ہے؟ کون ہے جو سماعت اور بصارت کا مالک ہے؟ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو اس کائنات کے امور چلا رہا ہے؟ تو وہ سب کہیں گے: اللہ، تو پھر آپ کہیں: تو تم تقوی اختیار کیوں نہیں کرتے؟[یونس: 31]

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے سوا بھی کوئی ہے جو اس کائنات کے امور کو چلا رہا ہے تو کیا وہ کافر ہو گا؟

تو انہوں نے جواب دیا: “جو شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ کافر ہے؛ کیونکہ اس عقیدے سے انسان غیر اللہ کو اللہ کا ربوبیت میں شریک بنا دیتا ہے، بلکہ یہ عقیدہ تو ایسے مشرکوں سے بھی بد تر ہے جنہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ غیر اللہ کو الوہیت میں شریک بنا دیا تھا۔

اللہ تعالی ایسے عقیدے سے محفوظ رہنے کی توفیق دے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔” ختم شد

الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، الشیخ عبد الرزاق عفیفی

دائمی فتوی کمیٹی: (1/4)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب