الحمد للہ.
عید کے دنوں میں قربانی کی بجائے قرض کی ادائیگی زیادہ واجب اور افضل ہے، اس کی متعدد وجوہات ہیں:
1- قرض کی ادائیگی واجب ہے، جبکہ قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے، اس لئے سنت مؤکدہ کو واجب پر ترجیح نہیں دی جائے گی، بلکہ جن اہل علم کے ہاں قربانی کرنا بھی واجب ہے، ان کے ہاں بھی قرض کی ادائیگی کو ہی ترجیح دی جائے گی، کیونکہ ان کے ہاں قربانی اسی شخص پر واجب ہے جو قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، اور مقروض شخص کے پاس قربانی کی استطاعت ہی نہیں ہوتی۔
2- قرض کی ادائیگی سے واجبات میں کمی ہوگی، جبکہ قربانی کرنے سے ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگا، اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ واجبات میں کمی کو ذمہ داریوں میں اضافے پر ترجیح دی جاتی ہے۔
3- قرض حقوق العباد میں شامل ہے، جبکہ قربانی اللہ تعالی کا ایسا مندوب حق ہے جس میں بہت وسعت ہے، ایسی صورت میں حقوق العباد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
4- قرضہ باقی رہنے کی وجہ سے بہت سے خطرات منڈلاتے رہیں گے؛ کیونکہ اگر اللہ تعالی قیامت کے دن مقروض شخص کی طرف سے قرضہ نہ چکائے تو پھر مقروض کی نیکیاں قرض خواہ کو دے دی جائیں گی، اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے؛ کیونکہ اس دن ہر مسلمان ایک ایک نیکی کے لئے ترسے گا۔
ان تمام امور سے واضح ہو تا ہے کہ قرض کی ادائیگی قربانی کرنے سے زیادہ اہم ہے، تاہم ایسی صورت میں کچھ حالات مستثنی بھی ہونگے، مثلاً: قرضہ کی ادائیگی کا وقت ابھی کافی دور ہے، اور مقروض کو یہ غالب گمان ہو کہ اب قربانی کرنے سے قرضہ کی ادائیگی کے وقت میں کوئی فرق نہیں آئے گا، یا مقروض شخص نے کوئی چیز گروی رکھی ہوئی ہو جسے مشکل حالات میں فروخت کر کے قرض چکا سکتا ہو، تو ان حالات میں آسانی سے دستیاب قربانی کر سکتا ہے، اور اللہ تعالی کے ہاں سے اس کا اجر بھی ملے گا۔
"اللقاء الشهری" (نمبر: 53، سوال نمبر: 24) میں ہے کہ:
"سوال: ایسی قربانی کا کیا حکم ہے جو قرض کی حالت میں کی جائے، کیا ایسے قربانی ہو جائے گی ؟ یا قرض خواہ سے اجازت لینا لازمی ہوگا؟
جواب: مجھے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ قرضے کی حالت میں قربانی نہ کرے، ہاں البتہ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وقت آنے پر میں قرض چکا سکتا ہوں تو پھر قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، وگرنہ اپنی رقم کو قرض کی ادائیگی کیلئے جمع کرے-بھائیو! قرض ادا کرنا اہم ہے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے ہوئے مقروض شخص جنازے کی نماز آپ نے نہیں پڑھائی، ایک بار ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، اور پھر استفسار فرمایا: (یہ مقروض تو نہیں؟) تو صحابہ کرام نے کہا: "جی ہاں! مقروض ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے ساتھی کی تم خود ہی نماز جنازہ پڑھ لو) آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی، اتنے میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: "اس کے ذمہ دو دینا ر میں دونگا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید وضاحت پوچھی: (قرض خواہ کا حق تمہارے ذمہ ہے، اور میت اس سے بری ہے؟) تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "یا رسول اللہ! جی ہاں! " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شہادت فی سبیل اللہ کے بارے میں پوچھا گیا ، کہ یہ ہر چیز کو مٹا دیتی ہے، تو آپ نے یہ بھی فرمایا: (ماسوائے قرضہ کے) یعنی شہادت کی وجہ سے قرضہ معاف نہیں ہوگا، اس لئے قرضے کا معاملہ بہت سنگین ہے –بھائیو!- اپنے آپ کو قرضے سے دور رکھو، کسی بھی ملک کو اقتصادی بحران اسی وقت اپنی لپیٹ میں لیتا ہے جب وہ قرضہ لیتے ہوئے کوئی خیال نہیں کرتے اور قرضہ لیتے جاتے ہیں، حتی کہ دیوالیہ ہو جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں انہیں قرضہ فراہم کرنے والے لوگ بھی دیوالیہ ہو جاتے ہیں، اس لئے قرضے کا معاملہ بہت ہی خطرناک اور سنگین ہے، چنانچہ مالی عبادات اتنی ہی کی جائیں جتنی اللہ تعالی نے مالی حالت اچھی بنائی ہے، لیکن اگر مالی طور پر آپ مستحکم ہیں تو اللہ کا شکر بھی کریں اور مالی عبادات بھی" انتہی
اسی طرح "الشرح الممتع" (8/455) میں کہتے ہیں:
"اگر انسان پر قرضہ ہے تو قربانی کرنے سے پہلے قرضہ اتارے" انتہی
مزید کیلئے سوال نمبر: (41696) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.