الحمد للہ.
اگر مسجد قريب ہو تو فرضى نماز مسجد ميں باجماعت ادا كرنا فرض ہے، تا كہ جب موذن حي على الصلاۃ كہتا ہے تو اس كى پكار كو قبول كرتے ہوئے اللہ تعالى كے گھر مسجد جانے كا عزم ہو.
اور فاسق كے پيچھے نماز ادا كرنے كے مسئلہ ميں راجح يہ ہے كہ اس كى پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے، چاہے وہ اپنا فسق ظاہر كرتا ہو، اس كے دلائل درج ذيل ہيں:
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" قوم كى امامت وہ كرائے جو كتاب اللہ كا سب سے زيادہ حافظ و قارى ہو " الحديث
صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاۃ حديث نمبر ( 673 ).
2 - صحابہ رضى اللہ تعالى عنہم حجاج بن يوسف كے پيچھے نماز ادا كيا كرتے تھے، حالانكہ حجاج فسق و فجور ميں معروف تھا.
3 - نظرى دليل:
ہر وہ شخص جس كى نماز صحيح ہے اس كى امامت كروانا بھى صحيح ہے نماز اور امامت كے صحيح ہونے ميں كسى فرق كرنے كى كوئى دليل نہيں..
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 307 ).
يہاں بعض فقھاء كرام كا ايك اور بھى قول ہے كہ فاسق كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں، ليكن اس قول والوں كے پاس كوئى صحيح دليل نہيں.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ اپنے بھائى كے بدلے آپ نماز پڑھايا كريں، خاص كر جب آپ ميں امامت كى افضليت والى شروط پائى جاتى ہوں جو درج ذيل حديث ميں ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قوم كى امامت وہ شخص كروائے جو كتاب اللہ كا سب سے زيادہ حافظ و قارى ہو، اگر وہ سب قرآت ميں برابر ہوں تو سنت كو سب سے زيادہ جاننے والا جماعت كروائے، اور اگر سنت ميں سب برابر ہوں تو ان ميں سب سے پہلے ہجرت كرنے والا شخص امامت كروائے ... "
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور اسى طرح اگر آپ سيدھى راہ پر ہيں اور دين پر عمل كرتے ہيں تو آپ جماعت كروائيں كيونكہ مستقيم شخص كى نماز كامل اور تمام اور پختہ اور خشوع وخضوع اور سنت كے مطابق ہوتى ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص قرآن مجيد كا حافظ ہے ليكن وہ داڑھى منڈواتا ہے، اور دوسرا شخص اس سے كم حافظ ہے ليكن داڑھى نہيں منڈواتا اس ميں امامت كا حكم كيا ہو گا ؟
كميٹى كا جواب تھا:
نماز كى امامت كے ليے داڑھى منڈوانے والے مكمل حافظ قرآن كے مقابلے ميں داڑھى والے شخص كو آگے كيا جائيگا چاہے اسے تھوڑا قرآن ہى حفظ ہو.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 375 ) فتاوى مشابھۃ.
واللہ اعلم .