جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اسلام قبول كرنے والى كافرہ عورت جس كو خاوند نے طلاق نہ دى ہو سے شادى كرنا

114722

تاریخ اشاعت : 21-11-2009

مشاہدات : 10247

سوال

ايك مسلمان شخص ايسى كافرہ عورت سے شادى كرنا چاہتا ہے جس نے ايك برس قبل اسلام قبول كيا اور اس كے كافر خاوند نے اسے طلاق نہيں دى، اس سلسلہ ميں كيا كرنا چاہيے ؟
اور اگر كافر خاوند اسے طلاق دے دے تو كيا عدت طلاق كے دن سے شمار ہوگى يا كہ اس كے اسلام قبول كرنے سے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب بيوى اسلام قبول كر لے اور اس كا خاوند كافر ہى ہو اور ان كا دخول ہو چكا ہو تو وہ مسلمان عورت اس كافر خاوند پر حرام ہے، اور مسلمان عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ كافر خاوند كو اپنے قريب آنے دے، ليكن اس كى عليحدگى اور عدت اور بائن ہونے كى ابتداء اس كے اسلام قبول كرنے كے وقت پر موقوف ہے، اس ليے اگر تو عدت ختم ہونے سے قبل اس كا خاوند اسلام قبول كر لے تو وہ نكاح اپنى حالت ميں باقى ہے، اور اگر اس كا خاوند اسلام قبول نہيں كرتا اور بيوى كى عدت گزر گئى تو وہ اپنے آپ كى خود مالك ہے اور اس كے ليے كسى اور شخص سے شادى كرنا حلال ہو جائيگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك نے دخول اور رخصتى كے بعد اسلام قبول كيا تو امام احمد سے اس كے متعلق دو روايتيں ہيں: ايك روايت يہ ہے كہ: عدت ختم ہونے پر موقوف ہے: اگر تو دوسرا عدت ختم ہونے سے قبل اسلام قبول كر لے تو وہ اپنے نكاح پر ہى رہينگے، اور اگر عدت گزرنے تك اسلام قبول نہ كيا اور عدت گزر گئى تو جب سے دونوں كے دين مختلف ہوئے ان ميں عليحدگى ہو جائيگى، چنانچہ دوبارہ عدت كى شروع كرنے كى كوئى ضرورت نہيں، امام زہرى اور ليث اور حسن بن صالح اور اوزاعى، امام شافعى، اسحاق كا بھى يہى قول ہے، اور مجاہد اور عبد اللہ بن عمر، اور محمد بن حسن سے بھى اسى طرح منقول ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 117 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر عيسائى شخص سے شادى شدہ عيسائى عورت اسلام قبول كر لے اور اسلام كا اعلان كرنے كے بعد وہ كسى مسلمان شخص سے شادى كرنا چاہے تو اس ميں شرعى حكم كيا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" جب كافر شخص كى بيوى اسلام قبول كر لے تو وہ عورت اس كافر شخص پر حرام ہو جاتى ہے اور ان ميں عليحدگى كرا دى جائيگى، اور اس كى عدت ختم ہونے كا خيال كيا جائيگا، اگر اس كى عدت گزرنے تك اس كا كافر خاوند مسلمان نہ ہوا تو وہ عورت اس سے بينونت صغرى حاصل كر لےگى كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اگر تم جان لو كہ وہ عورتيں مومن ہيں تو پھر انہيں كافروں كى طرف واپس نہ كرو، نہ تو وہ عورتيں ان كے ليے حلال ہيں، اور نہ ہى وہ كافر ان كے ليے حلال ہيں .

اور اگر كافر خاوند اس كى عدت ختم ہونے سے قبل اسلام قبول كر لے تو وہ اس كى طرف واپس كر دى جائيگى؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وہ مہاجر عورتيں ان كے خاوندوں كو واپس كر دى تھيں جن كے خاوندوں نے عدت كے دوران اسلام قبول كر ليا تھا " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ.

الشيخ صالح بن فوزان الفوزان.

الشيخ بكر بن عبد اللہ ابو زيد.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 20 ).

اس سے يہ معلوم ہوا كہ اس عورت كے ليے عدت گزرنے كے بعد ہى كسى دوسرے سے شادى كرنا جائز ہوگا، اور اس كے ليے كافر خاوند سے طلاق حاصل كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.

ليكن سركارى كاغذات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ ان ميں اس كا خاوند كافر ہے، اور پھر يہ بھى كہ وہ غير اسلامى ملك ميں رہتى ہے اس ليے ہو سكتا ہے كہ پہلے خاوند سے عليحدگى ثابت كرنے كى ضرورت پيش آئے تا كہ اس كے نتيجہ ميں كوئى خرابى پيدا نہ ہو كہ اس كے بغير وہ شادى نہ كر سكتى ہو، اس ليے اسے اپنے كافر خاوند كو ايسا ثبوت دينے كى كوشش كرنى چاہيے جس پر وہ راضى ہو كر اس سے عليحدگى كر لے، يا پھر كسى بھى طريقہ سے عليحدگى كے كاغذات حاصل كر ليے جائيں چاہے خاوند كو كچھ رقم بھى ادا كرنى چاہيے.

اس ثبوت مل جانے كے بعد عدت كى كوئى ضرورت نہيں كيونكہ صرف عدت گزرنے سے ہى جو كہ اس كے اسلام قبول كرنے سے شروع ہوتى ہے وہ كافر خاوند سے بائن ہو جائيگى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب