جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

گھونگا کھانے کا حکم

114855

تاریخ اشاعت : 14-03-2017

مشاہدات : 19628

سوال

گھونگے کھانے کا کیا حکم ہے ؟ یہ علم میں رہے کہ اسے تیار کرنے کے لیے زندہ پکانا پڑتا ہے! اور کیا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گھونگا کھایا جاتا تھا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

گھونگا دو قسم کا ہوتا  ہے، ایک تو سمندری ہے اور دوسری خشکی پر پایا جاتا ہے ، خشکی پر پایا جانے والا گھونگا ان حشرات الارض میں شمار ہوتا ہے جس میں بہنے والا خون نہیں، جبکہ سمندری گھونگا آبی حیوانات میں شامل ہوتا ہے۔

الموسوعۃ العربیہ العالمیۃ میں ہے:

" گھونگا پانی کا نرم  و ملائم جسم والا جانور ہے اور یہ آبی کیڑوں میں شامل ہوتا ہے، ان آبی کیڑوں کی کافی تعداد کے جسم سے باہر سیپی ہوتی ہے، لیکن کچھ گھونگوں کی جلد کے اوپر یا نیچے سیپی ہوتی ہے، اور بہت سے گھونگوں کی سرے سے سیپی نہیں ہوتی۔
خشکی کے گھونگوں کے محسوس کرنے کیلیے دو لمبے حاسے ہوتے ہیں، اور ان پر آنکھیں بھی ہوتی ہیں، اور بھورے رنگ کا بڑا گھونگا موذی حشرات میں شمار کیا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ نباتات کھانے کا شدید شیدائی سمجھا جاتا ہے، اور اس کی لمبائی دس سینٹی میٹر ہوتی ہے " انتہی

دوم:

گھونگے کھانے کا حکم :

1- بری یعنی خشکی پر رہنے والی گھونگے حشرات کھانے کے حکم میں آتے ہیں، اور جمہور علماء کرام ان کی حرمت کے قائل ہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ المجموع ( 9 / 16 ) میں کہتے ہیں:
حشرات الارض میں علماء کرام کا موقف ۔۔۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ حرام ہیں، ابو حنیفہ، اور امام احمد اور داود رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے، جبکہ امام مالک انہیں حلال کہتے ہیں " انتہی

اور ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" خشکی کا گھونگا کھانا حلال نہیں ہے اور نہ ہی حشرات الارض ، مثلاً:  چھپکلی، اور چیونٹی، بھونڈ ،شہد کی مکھی، مکھی، اور سب کیڑے مکوڑے، چاہے وہ اڑنے والے ہوں یا اڑنے والے نہ ہوں، جویں، بھڑ ،مچھر اور حشرات کی تمام اقسام بھی حرام ہیں؛ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ)[یعنی:  تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے ]اور دوسری جانب اللہ تعالی کا فرمان ہے: (إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ)[ مگر جسے تم ذبح کر لو]اور واضح طور پر ثابت ہے کہ ذبح کے قابل  جانور کے حلق پر یا پھر سینے میں چھری چلا کر [مثلاً: اونٹ کو نحر کرتے ہوئے]ذبح کیا جاتا ہے، اور جسے ذبح کرنے کی ہم میں استطاعت نہ ہو تو اسے کھانے کا کوئی راستہ نہیں ہے لہذا وہ حرام ہو گا؛ کیونکہ اسے کھانا ممکن نہیں ہے [اس لیے کہ] صرف مردار اور غیر ذبح شدہ حالت میں ہی کھانے کی صورت نکلتی ہے[جو کہ دونوں حرام ہیں]" انتہی
دیکھیں: المحلی ، از ابن حزم ( 6 / 76 - 77 )

اور مالکی فقہائے کرام ایسے جانور میں ذبح کی شرط نہیں لگاتے جس میں بہنے والا خون نہ ہو، بلکہ انہوں نے اسے ٹڈی کا حکم دیا ہے، اور اسے کھانے کیلیے تیار کرنے کا طریقہ یہ ہو گا کہ اسے چھیل کر پر وغیرہ اتار دیں، یا پھر بھون لیں یا پھر اسے بسم اللہ پڑھ کر کانٹا چبھو کر مار دیں ۔

المدونۃ ( 1 / 542 )میں ہے:

" امام مالک رحمہ اللہ سے مغرب میں پائے جانے والے گھونگوں کے بارے میں دریافت کیا گیا یہ جنگلوں میں پائے جاتے ہیں اور درختوں سے چمٹ کر رہتے ہیں، کیا انہیں کھایا جا سکتا ہے ؟
امام مالک رحمہ اللہ کا جواب تھا:
" میرے خیال میں اس کا حکم ٹڈی والا ہی ہے، اگر اسے زندہ پکڑا جائے تو اس کے پر وغیرہ اتارنا یا بھون لینا کافی ہے، اور میرے خیال میں اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں. اور جو مردہ حالت میں ملے اسے نہ کھایا جائے " انتہی

اور موطا کی شرح " المنتقی شرح الموطا ( 3 / 110 )" میں ابو ولید الباجی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
" جب یہ ثابت ہو گیا تو گھونگے کا حکم ٹڈی والا ہے امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کو کھانے کیلیے تیار کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس کے پر وغیرہ اتار لیے جائیں یا پھر اس میں بسم اللہ پڑھ کر کانٹا چبھویا  جائے جس طرح ٹڈی کا سر اتارتے وقت پڑھی جاتی ہے " انتہی

2-  اور سمندری گھونگے حلال ہیں؛ کیونکہ عمومی طور پر سمندر کا شکار اور اسے کھانا حلال ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:
(أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعاً لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ)
ترجمہ: تمہارے لیے سمند کا شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے، تمہارے فائدے کے لیے اور مسافروں کے لیے ۔[المائدة:96]

نیز صحیح بخاری میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کا یہ قول مروی ہے:
" سمندر کا شکار وہ ہے جو شکار کیا جائے، اور اس کا [آیت میں مذکور لفظ طعام یعنی کھانا] وہ ہے جسے سمندر باہر پھینک دے "

اور صحیح بخاری میں صحابی رسول شریح رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:
" سمندر میں پائی جانے والی ہر بحری چیز ذبح شدہ ہے "

ان تمام تفصیلات کے بعد:  ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں بیان ہوا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھونگا کھایا ہو۔

خلاصہ یہ ہوا کہ:

سمندری اور خشکی دونوں گھونگے کھانا جائز ہیں، چاہے اسے زندہ ہی پکا لیا جائے تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ خشکی والے گھونگے میں بہنے والا خون نہیں پایا جاتا کہ اسے ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئے اور اس سے خون نکالنا واجب ہو؛ اور سمندری گھونگے سمندر کے شکار اور [مذکورہ آیت میں ذکر شدہ]سمندر کے "طعام" کے عموم میں داخل ہوتے ہیں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب