الحمد للہ.
جس حالت كے متعلق آپ نے دريافت كيا ہے اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے ضابطہ اور اصول مقرر فرما ديا ہے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى شخص اپنے پيٹ ميں كچھ گڑبڑ محسوس كرے اور اسے يہ اشكال پيدا ہو كہ آيا اس سے كچھ خارج ہوا ہے يا نہيں؟ تو وہ مسجد سے اس وقت تك نہ نكلے جب تك آواز نہ سن لے يا پھر بدبو نہ پا لے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 362 ).
اور عبد اللہ بن زيد رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے شكايت كى گئى كہ مرد كو يہ خيال آتا ہے كہ اس كى نماز ميں كچھ پيش آيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ نماز چھوڑ كر نہ جائے حتى كہ آواز سنے يا پھر بدبو پائے "
متفق عليہ.
امام نووى رحمہ اللہ مسلم شريف كى شرح ميں لكھتے ہيں:
" يہ حديث اسلامى اصولوں ميں سے ايك اصول، اور عظيم فقھى قوائد ميں سے ايك قاعدہ ہے، اور اس ميں كہ اشياء كو ان كے اصل پر باقى ركھنے كا حكم ہے حتى كہ اس كے خلاف يقين ہو جائے، اور اس پر پيدا ہونے والا شك اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں ديگا " اھـ
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 4 / 49 ).
اور نجاست خارج ہونے سے قبل كوئى معتبر نہيں، بعض اوقات گيس منتقل ہونے سے انسان كے پيٹ ميں آوازيں پيدا ہوتى رہتى ہيں.
اس ليے جب نمازى دوران نماز اپنے پيٹ ميں كوئى آواز سنے اور نواقض وضوء ميں سے كوئى چيز خارج نہ ہو، اور نہ ہى آواز سننے يا بدبو آنے كى كوئى دليل ملے تو اسے اس كى طرف التفات نہيں كرنا چاہيے اور نہ ہى توجہ دينى چاہيے، كيونكہ اصل ميں اس كى طہارت اور وضوء قائم ہے اور وضوء باطل نہيں ہوا، اور كسى چيز كے خارج ہونے كا يقين كيے بغير وہ اپنى نماز كو نہ چھوڑے، كيونكہ يقين سے ہى شك زائل ہوتا ہے.
واللہ اعلم .