الحمد للہ.
یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی آزمائش بہت سخت اور مصیبت عام ہو چکی ہے اگرچہ وہ انفرادی ہو یا قومی طور پر امت مسلمہ بہت سی سختیوں اور مشکل دوروں سے گزرتی رہی تو صحیح تصور اور دور اندیشی اور فکری روشنی کے ساتھ ان سے نکلتی رہی اور اسباب کو تلاش کیا جاتا اور ابتدا اور انجام کو دیکھا جاتا اور پھر اس کے بعد اسباب کو لے کر عمل کیا جاتا تھا تو اس طرح گھروں میں داخل ہونے کے لۓ دروازے کا استعمال کر کے امت مسلمہ اللہ تعالی کے حکم سے ان مشکلوں سے نکل جانے میں کامیاب ہوتی تو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس آجاتی اور اس کی گئ ہوئی بزرگی بحال ہو جاتی تو امت مسلمہ کا اپنے روشن دور میں یہ حال تھا
لیکن اس آخری دور میں جو کہ جہالت سے بھرا ہوا ہے اور اس میں الحاد وغربت کی آندھیاں اور جھکڑ چل رہے اور ضلالت وگمراہی پھیلی ہوئی ہے تو یہ معاملہ بہت سے مسلمانوں پر خلط ملط ہو چکا ہے اور انہوں نے تقدیر اور قضاء پر ایمان کو زمین میں مستقل رہنے کا سہارا بنا لیا اور اسے دور اندیشی اور کوشش کو چھوڑنے کا جواز بنا لیا اور معاملات کی بلندی اور اہمیت اور عزت وکامیابی کے راستوں کے متعلق سوچ کو ختم کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔
تو انہوں نے آسانی سے سوار ہونے کو مشکل پر ترجیح دی ہے تو ان کے لۓ مخرج یہ تھا کہ وہ آدمی تقدیر پر توکل کرے اور بیشک اللہ تعالی جو چاہے کرتا ہے اور وہ جو چاہے ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا تو اسی کا ارادہ چلتا اور اسی کی مشیت ہوتی ہے اور اس کی تقدیر اور فیصلہ جاری ہوتا ہے تو ہماری کوئی طاقت نہیں اور نہ ہی ان سب چیزوں میں ہمارا ہاتھ ہے ۔
تو اس طرح ہر آسانی اور سہولت کے ساتھ اختلاف کے بغیر اس کی تقدیر کو تسلیم کرنا چاہیے اور مشروع اور مباح اسباب پر عمل کرنا چاہے-
نہ تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور نہ ہی اللہ تعالی کے دشمنوں سے جہاد اور نہ ہی علم کے نشر کرنے اور جہالت ختم کرنے کی حرص اور نہ ہی غلط افکار اور گمراہی کی مبادیات سے ٹکراؤ ہے تو یہ سب اس دلیل کی بنا پر کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے چاہا ہے ۔
اور حقیقت میں یہی بڑی مصیبت اور عظیم گمراہی ہے جس نے امت مسلمہ کو ترقی نہیں کرنے دی اور اسے گہرائیوں میں پھینک دیا اور دشمنوں کو ان پر مسلط کرنے کا سبب بنی ہے اور اس ہلاکت کے بعد ہلاکت چلتی جا رہی ہے ۔
اور اسباب پر عمل کرنا تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں بلکہ یہ تو اسے مکمل کرتا ہے تو اللہ تعالی نے ہمارے لۓ کچھ چیزوں کا ارادہ کیا ہے اور ہم سے بھی کچھ چیزوں کا ارادہ کیا ہے تو جو ارادہ اس نے ہمارے ساتھ کیا ہے اسے ہم سے لپیٹ لیا (چھپا ) ہے اور جو ہم سے چاہا ہمیں اسے کرنے کا حکم دیا ہے ۔
تو اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کافروں کو دعوت دین دیں اگرچہ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے اور ہم سے اس نے یہ چاہا کہ ہم کفار کے ساتھ لڑائی کریں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم ان کے سامنے شکست سے دو چار ہوں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم ایک امت بن کر رہیں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم جدا جدا ہو جائیں گے اور اختلاف کریں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کفار پر سخت اور آپس میں نرم دل ہوں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم آپس میں بہت سخت ہوں گے اور اسی طرح اور بھی ۔
تو اس کے درمیان خلط ملط کرنے کا اس نے ہمارے ساتھ جو ارادہ کیا اور ہم سے جو چاہا ہے یہی چیز معاملے کو خلط ملط کرتی اور جس سے منع کیا گیا ہے اس میں وقوع کا سبب بنتی ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا اور ہر چیز کا خالق ہے اسی کے ہاتھ میں ہر چيز کی بادشاہی ہے اور وہی ہے جس کے پاس آسمان وزمین کی کنجیاں ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالی نے اس جہان کے لۓ کچھ ضوابط تیار کۓ ہیں جن پر یہ چل رہا اور قوانین بناۓ ہیں جن کے ساتھ یہ منظم ہے اگرچہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ وہ یہ نظام اور قوانین ختم اور توڑ ڈالے اور نہ بھی توڑے۔
اور یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالی کافروں کے مقابلہ میں مومنوں کی مدد پر قادر ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہیں اور اسباب پر عمل نہ کریں تو اللہ تعالی مومنوں کی مدد کرے گا کیونکہ اسباب کے بغیر مدد ملنا محال ہے اور اللہ تعالی کی قدرت مستحیل سے متعلق نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حکمت کے خلاف ہے اور اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق حکمت کے ساتھ ہے ۔
تو اللہ تعالی کا ہر چیز پر قادر ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ ایک فرد یا جماعت اور یا کوئی امت اس پر قادر ہے تو اللہ تعالی کی قدرت اور اس کا اس طرح کرنا جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ان دونوں کے درمیان خلط ملط کرنا ہی انسان کو بیٹھنے پر ابھارتا ہے اور وہی امتوں اور لوگوں کو مد ہوش کر دیتا ہے ۔
اور ایک جرمن مستشرق نے مسلمانوں کے آخری دور کی تاریخ لکھتے ہوئے اسی کا ملاحظہ کیا ہے ( مسلمان کی طبیعت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ارادہ کو تسلیم اور اس کی تقدیر اور فیصلے پر راضی ہوتا اور وہ ہر چیز کے ساتھ جس کا وہ مالک ہے اللہ واحد اور قہار کے لۓ عاجزی کرتا ہے ۔
تو اس اطاعت کے دو مختلف اثر تھے تو اسلامی دور کے پہلے حصہ میں لڑائیوں کا بہت دور تھا اور ان میں مسلسل مدد ملتی رہی اور کامیابی ہوتی رہی کیونکہ یہ اطاعت فوجی کو اپنی روح قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرتی تھی ۔
اور اسلام کے آخری دور میں عالم اسلامی پر جمود طاری ہو چکا تھا جو ان کی حکومت گرانے کا سبب بنا اور اسے عالمی احداث سے لپیٹ کر رکھ دیا۔
دیکھیں کتاب : العلمانیہ للشیخ سفر الحوالی نے پاول شمٹز کی کتاب الاسلام قوۃ الغد العالمیۃ ص 87 ( اسلام کل کی عالمی طاقت ہے ) .