سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بغير سبب طلاق لينا چاہتى ہے كيا مہر واپس كرنا ہو گا

117780

تاریخ اشاعت : 18-09-2010

مشاہدات : 5037

سوال

ميں نے ايك رشتہ دار لڑكى سے شادى كى اور كچھ ہى عرصہ اس كے ساتھ رہا، وہ ميرا احترام نہيں كرتى تھى، اور ميں جو اسے دينى اور معاشرتى نصيحت كرتا اسے وہ قبول نہيں كرتى تھى اس ليے ہمارے درميان مشكلات كھڑى ہو گئيں، پھر ميں ملازمت كے سلسلہ ميں باہر چلا گيا اور اس كے ويزہ كا سارا انتظار كر ديا تا كہ وہ بھى ميرے بعد ميرے پاس آ جائے.
ليكن اس نے ميرے پاس آنے سے انكار كر ديا، اور اب طلاق لينے پر مصر ہے، ميں نے كئى بار اصلاح كى كوشش كى ليكن كامياب نہ ہو سكا، اور اسى طرح كچھ رشتہ داروں نے بھى صلح كرانے كى كوشش كى ليكن كچھ فائدہ نہ ہوا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا باقى مانندہ مہر لينے كا حق ركھتى ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ عليحدگى كرنا چاہتى ہے، پہلے اور عليحدگى كے وقت اس پر ميرے كيا حقوق ہيں ؟
كيا مجھے حق ہے كہ منگنى اور شادى كے موقع پر جو سونا ديا تھا وہ واپس كرنے كا مطالبہ كروں ؟
اور اس كا ويزہ نكلوانے كے ليے ميں نے جو تين ہزار ڈالر سفارت خانہ كو ديے كيا ميں اس كا مطالبہ كر سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب نكاح ہو جائے تو خاوند اور بيوى دونوں كے ايك دوسرے پر حق مقرر ہو جاتے ہيں اور ان حقوق ميں درج ذيل حقوق شامل ہيں:

بيوى كا اپنے خاوند كى اطاعت كرنا، اور اس كے پاس جانا اور اپنے آپ كو خاوند كے سپرد كرنا تاكہ وہ اس سے فائدہ حاصل كرے، اور اسى طرح خاوند كے ذمہ بيوى كى رہائش اور اس كا نان و نفقہ واجب ہو جاتے ہيں، اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك حقوق ہيں جو سوال نمبر ( 10680 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.

دوم:

عورت كے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز نہيں، صرف اسى صورت ميں طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے جس طلاق مباح كرنے كا كوئى سبب پايا جائے.

كيونكہ ابو داود اور ترمذى اور ابن ماجہ ميں حديث مروى ہے ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہاں الباس سے مراد تنگى اور ايسا سبب مراد ہے جس كى بنا پر طلاق كى طرف رجوع كيا جائے.

سوم:

جب آپ اپنى بيوى كو طلاق دينے كى رغبت نہ ركھتے ہوں اور نہ آپ كى جانب سے كوئى ايسى كوتاہى ہوئى ہو جو بيوى كو طلاق كا مطالبہ كرنے پر ابھارے، تو پھر آپ كو حق حاصل ہے كہ طلاق دينے سے انكار كر ديں اور اپنى بيوى كو خلع لينے كا كہيں كہ وہ باقى مانندہ مہر يا سونے سے دستبردار ہو جائے، يا پھر آپ نے دو سونا وغيرہ اسے ديا تھا اس سب سے دستبردار ہو.

اور آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے درميان رشتہ دارى كا خيال كريں، اور بيوى كے گھر والوں پر اتنا بوجھ نہ ڈاليں جس كى وہ استطاعت نہ ركھتے ہوں، اگر آپ صرف سونا واپس لينے اور باقى مانندہ مہر سے دستبردار ہونے پر ہى اكتفا كريں تو يہ بہتر ہو گا.

مزيد آپ سوال نمبر ( 26247 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح بيوى عطا فرمائے جس سے آپ كى آنكھيں ٹھنڈى ہوں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب