الحمد للہ.
اول:
خاوند اور بيوى دونوں پر ايك دوسرے كے حقوق ہيں جن كى ادائيگى واجب ہے، ان حقوق كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 10680 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
بيوى كے اپنے خاوند پر حقوق ميں اسے عليحدہ اور مستقل رہائش لے كر دينے كا حق بھى شامل ہے، اس ليے خاوند اسے اپنے والدين اور كسى اور رشتہ دار يا دوسرى بيوى كے ساتھ رہنے پر مجبور نہيں كر سكتا، يہ رہائش خاوند اور بيوى كے حال اور قدرت كے مناسب ہوگى، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جہاں تم خود رہو ان عورتوں كو بھى اپنى استطاعت كے مطابق وہيں ركھو الطلاق ( 6 ).
بيوى كے ليے كيسے رہائش ہونا كافى ہے اس كى تفصيل ہم سوال نمبر ( 7653 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
اللہ سبحانہ و تعالى نے جن حقوق كا حكم ديا ہے ان حقوق زوجيت ميں خاوند اور بيوى كى جانب سے ايك دوسرے كے ساتھ حسن معاشرت شامل ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت سے پيش آؤ اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے النساء ( 19 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان اس طرح ہے:
اور ان عورتوں كو بھى ويسے ہى حقوق حاصل ہيں جس طرح ان پر ( خاوند كے ) حقوق ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).
حسن معاشرت ميں يہ بھى شامل ہوتا ہے كہ بيوى اپنے خاوند كے اقربا اور رشتہ داروں كى عزت و تكريم كرے، اور خاوند اپنى بيوى كے عزيز و اقارب كى عزت و تكريم كرے، بلاشك و شبہ اس كے ليے ايك يا كئى روز كى مہمان نوازى كرنا پڑےگى، يعنى حسب حاجت و ضرورت جتنے ايام كى انہيں ضرورت ہو مہمان نوازى كى جائيگى.
بعض اوقات بيوى اپنى ماں يا كسى اور رشتہ دار كى اپنے گھر ميں رات بسر كرنے كى رغبت ركھتى ہوگى، اور بعض اوقات بيوى كا كوئى رشتہ دار اس كے پاس كئى روز كے ليے مہمان بن كر آئيگا، اور اسى طرح برعكس خاوند كا رشتہ دار اور ماں باپ بھى آئينگے اس ميں كوئى شخص بھى تنازع نہيں كرتا.
اگر بالفرض خاوند بيوى كے رشتہ دار اور ماں باپ كو اپنے گھر ٹھرانے سے انكار كر دے تو يہ گرى ہوئى حركت ہو گى، اور عدم مروت اور بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كى مخالفت شمار كى جائيگى.
اسى طرح اگر بيوى اس سے انكار كرتے ہوئے اپنى ساس وغيرہ كو گھر ميں ايك رات ركھنے سے اور ان كى مہمان نوازى كرنے سے انكار كرے تو يہ قبيح اور غلط امر اور گرا ہوا فعل ہے جو دين اور اخلاق و مروت ركھنے والى عورت سے صادر نہيں ہو سكتا، اور پھر اس ميں واضح اور ظاہرى خاوند كى بےادبى پائى جاتى ہے.
يہ چيز صرف خاوند اور بيوى كے خاندان اور گھر والوں كے ساتھ ہى مخصوص نہيں، بلكہ ہو سكتا ہے كسى دن خاوند اپنے مسلمان بھائى يا كسى دوست كو اپنے ہاں ايك يا كئى روز كى مہمان نوازى كى دعوت دے، تو بيوى كو حق نہيں ہوگا كہ اس كى مخالفت كرے، جب تك بيوى كو اس ميں واضح طور پر ضرر نہ ہو اور تكرار سے ايسا نہ كيا جائے، اور يہ چيز گھر كى وسعت اور تنگى كے اختلاف سے مختلف ہوگى.
مقصد يہ ہے كہ خاوند كا اپنے گھر ميں بطور مہمان ايك يا دو راتيں ركھنے ميں كوئى تعجب والى بات نہيں، اور شرعا بھى اس ميں كوئى مانع نہيں اور نہ ہى عرف و عادت اور رواج اس كا مخالف ہے، بلكہ يہ تو مكارم اخلاق ميں شامل ہوتا ہے اور پھر اس كى ضرورت بھى ہے كہ مہمان نوازى كى جائے.
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك بتسر آدمى كے ليے اور دوسرا بستر اس كى بيوى كے ليے، اور تيسرا بستر مہمان كے ليے، اور چوتھا بستر شيطان كے ليے ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2084 ).
اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ اگر آدمى اپنے گھر ميں مہمان كے ليے بستر تيار ركھے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ہے.
ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ اس شخص كى بيوى كو خدشہ ہے كہ اگر اس نے ايك بار بھى انہيں اپنے گھر ميں رات بسر كرنے دى تو خاوند اپنى والدہ كو وہيں ركھ لےگا يا پھر بار بار ايسا ہوگا، ليكن اگر خاوند اسے يقين دلا دے كہ اسے رہائش اور سكن ميں بيوى كے حق كا ادراك ہے، اور وہ اس كے ساتھ كسى دوسرے كو ركھنا قبول نہيں كريگا، تو پھر بيوى كو خوف ركھنے اور پريشان ہونے كى كوئى ضرورت نہيں.
بيوى كو يہ علم ہونا چاہيے كہ اس كے اس غلط اور برے سلوك كى بنا پر وہ اپنے سسرال والوں اور خاوند سے بھى برے سلوك كى مرتكب ہو رہى ہے، بلكہ اپنے ساتھ بھى برا سلوك كر رہى ہے؛ كيونكہ جب گھر وسيع ہو تو بيوى كے ليے اپنے خاوند كو كسى كى مہمان نوازى سے روكنے كا حق حاصل نہيں ہے.
اور يہ كہ ايسا كرنے پر وہ طلاق لينا اختيار كر لے يہ تو بہت ہى عجيب معاملہ ہے، ہاں اگر اس مسئلہ ميں كوئى اور اشياء بھى ہوں جن كا سائل نے سوال ميں ذكر نہيں كيا؛ كيونكہ صرف ساس يا نند كے گھر ميں ايك يا كئى بار رات بسر كرنے كى بنا پر بچوں والى اولاد كا طلاق يا علحدگى كا مطالبہ كرنا بہت ہى بعيد ہے.
اس ليے ہم سوال ميں مذكورہ اشياء كو مدنظر ركھتے ہوئے ہى سوال كا جواب ديتے ہيں:
1 - جب بيوى كو كوئى معتبر ضرر اور نقصان نہ ہوتا ہو تو خاوند گھر ميں جسے چاہے مہمان بنا سكتا ہے، اور بيوى كو مہمان نوازى سے انكار كرنے كا حق نہيں.
2 بيوى اپنے خاوند كى نافرمانى كرنے اور اسے ناراض كرنے اور خاوند يا اس كے گھر والوں كى اہانت كرنے پر گنہگار ہوگى، اسى طرح اگر وہ صرف گھر ميں ساس كے ايك يا دو راتيں بسر كرنے كى بنا پر طلاق يا علحدگى طلب كرتى ہے تو بھى گنہگار ہوگى.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اگر بيوى خاوند كو اپنى والدہ سے حسن سلوك ميں ركاوٹ كا سبب بنتى ہے، اور خاوند كو اپنى والدہ كى عزت و اكرام اور اس كى مہمان نوازى كرنے يا اسے كچھ راتيں اپنے گھر بسر كرنے كى دعوت دينے سے روكتى ہے تو خاوند كے ليے ايسى بيوى كو طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ والدہ كى مہمان نوازى اور عزت و اكرام كرنا اور گھر ميں كچھ دنوں كے ليے ركھنا والدہ سے حسن سلوك اور اور مكارم اخلاق ميں شامل ہوتى ہے جس ميں كوئى اختلاف نہيں
ہمارى اس خاوند كو نصيحت ہے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ وہ طريقہ اختيار كرے جس كى راہنمائى كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى نے كچھ اس طرح فرمايا ہے:
اور جن عورتوں كى تمہيں بددماغى اور نافرمانى كا ڈر ہو تم انہيں وعظ و نصيحت كرو، اور انہيں بستر ميں عليحدہ كر دو، اور انہيں ہلكى سى مار كى سزا دو، اگر وہ تمہارى اطاعت كرنے لگيں تو پھر تم ان پر كوئى راہ نہ تلاش كرو يقينا اللہ سبحانہ و تعالى بلند و بالا ہے النساء ( 34 ).
اور اگر اس سے اصلاح نہ ہو اور كوئى فائدہ حاصل نہ ہو اور دونوں كے حالات اور زيادہ خراب ہو جائيں تو پھر خاوند اور بيوى كے خاندان والوں سے ايك ايك منصف مقرر كيا جائے جو دونوں كے معاملہ كو دونوں كو اكٹھا ركھنے يا عليحدہ ہو جانے كا جو بھى بہتر سمجھيں فيصلہ كر ديں.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تمہيں ان دونوں كے مابين اختلاف اور جھگڑے كا خدشہ ہو تو تم ايك منصف خاوند كے خاندان سے اور ايك منصف بيوى كے خاندان سے مقرر كرو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہيں گے تو اللہ ان ميں توفيق پيدا كر ديگا يقينا اللہ تعالى خوب جاننے والا اور خبر ركھنے والا ہے النساء ( 35 ).
ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے پہلى حالت ذكر ہے كہ اگر بيوى كى جانب سے نفرت اور بد دماغى پائى جائے، پھر دوسرى حالت بيان كى كہ جب خاوند اور بيوى دونوں كى جانب سے نفرت ہو تو اللہ تعالى نے فرمايا:
اور اگر تم دونوں كے مابين مخالفت سے ڈرو تو ايك منصف خاوند كے خاندان سے اور ايك منصف بيوى كے خاندان سے مقرر كرو .
فقھاء كرام كہتے ہيں:
جب خاوند اور بيوى كے مابين مخالفت پيدا ہو جائے اور ان كا معاملہ شدت اختيار كر جائے اور جھگڑا لمبا ہو جائے تو پھر عورت كے خاندان سے بھى اور مرد كے خاندان سے بھى ايك قابل اعتماد منصف شخص مقرر كيا جائے تاكہ وہ دونوں بيٹھ كر دونوں كا معاملہ ديكھيں اور دونوں ميں توفيق يا پھر عليحدگى جسے مناسب سمجھيں فيصلہ كر ديں، ليكن شارع نے توفيق كى زيادہ اميد ركھى ہے اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:
اگر وہ دونوں اصلاح كرانا چاہيں گے تو اللہ تعالى ان كے مابين توفيق پيدا كر ديگا انتہى مختصرا.
ہم اس شخص كى بيوى كو بھى يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنے خاوند كو راضى كرنے كى كوشش كرے، اور خاوند اپنے خاندان والوں كے ساتھ جو حسن سلوك كرنا چاہتا ہے اس ميں وہ خاوند كى ممد و معاون ثابت ہو، اور اپنے اوپر اللہ كى نعمت كا شكر ادا كرے كہ اللہ نے اسے خاوند اور اولاد اور خاندان و گھر سے نوازا ہے اور وہ اس نعمت كو اپنے آپ سے چھن جانے والے اعمال مت كرے.
اسے اپنى مشكل اور معاملہ اہل علم پر پيش كرنا چاہيے اور وہ اسے تجربہ كار اور عقل و دانش ركھنے والوں كے سامنے ركھنا چاہيے تا كہ وہ اسے بتا سكيں كہ جو كچھ وہ كر رہى ہے صحيح ہے يا كہ غلط.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ سب لوگوں كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق دے جن سے اللہ تعالى راضى ہوتا ہے اور جو اعمال اللہ كو پسند ہيں.
واللہ اعلم .