الحمد للہ.
طبى طور پر پنتيس برس كے بعد حمل خطرناك شمار ہوتا ہے؛ كيونكہ اس مرحلہ كى عمر ميں حمل كابوجھ خطرناك ہوتا ہے چاہے وہ طبى ہو يا ولادت كے دوران خطرہ بڑھ جاتا ہے، اسى طرح بچے كو موروثى بيماري لگنے كے بھى امكانات زيادہ ہو جاتے ہيں.
ديكھيں: Chervenak JL and Kardon NB (1991): Advancing maternal age: the actual risks.Female patient. Nov;16(11):17-24) .
اور ہر برس عورت كى عمر زيادہ ہونے كے ساتھ ساتھ خطرات بھى بڑھ جاتے ہيں، حتى كہ يہ خطرات پچاس برس كى عمر كے بعد تو انتہائى صورت اختيار كر ليتے ہيں.
ديكھيں: Donoso E and Carvajal JA(2008): Maternal, perinatal and infant outcome of spontaneous pregnancy in the sixth decade of life. Maturitas. May 13.
بڑى عمر ميں حمل ٹھرنے مختلف بيمارياں بڑھ جاتى ہيں جن ميں حاملہ عورت كو بلڈ پريشر اور شوگر بڑھ جاتى ہے، پنتيس برس سے بڑھى عمر كى عورتوں ميں تقريبا چھ فيصد عورتيں ( 1.3 % ) اس عمر سے كمر عمر كى بنسبت زيادہ پائى جاتى ہے، سرچ كے مطابق يہى معلوم ہوا ہے:
Jacobsson B, Ladfors L, Milsom I: Advanced maternal age and adverse perinatal outcome. Obstet Gynecol. 2004 Oct;104(4):727-33.)
(Jane Cleary-Goldman, Fergal D. Malone, John Vidaver,et.al.: Impact of Maternal Age on Obstetric Outcome. Obstetrics & Gynecology 2005;105:983-990 . 2005 by The American College of Obstetricians and Gynecologists)
اسى طرح پچاس برس كى عمر كے بعد بہت زيادہ نسبت سے بڑھ جاتى ہے.
ديكھيں: Hamisu M. Salihu, M. Nicole Shumpert, Martha Slay,et al.( 2003): Childbearing Beyond Maternal Age 50 and Fetal Outcomes in the United States. Obstetrics & Gynecology;102:1006-1014
اس كے ساتھ ساتھ اثنائے حمل ہاسپٹل ميں داخل ہونے كى جو ضرورت ہوتى ہے وہ پچاس برس كى عمر سے اوپر تريسٹھ فيصد ( 63 % ) جبكہ اس سے كم عمر ميں بائيس فيصد ( 22 % ) ہوتى ہے.
ديكھيں: Michal J. Simchen, Yoav Yinon, Orit Moran, et al (2006): Pregnancy Outcome After Age 50 .Obstetrics & Gynecology;108:1084-1088.
ولادت كى مشكلات:
ماں كى عمر كا زيادہ ہونا طبعى ولادت كى كمزورى اور آپريشن كے ذريعہ ولادت بڑھ جانے كا باعث ہے؛ ايك سرچ كے مطابق چاليس برس كى عمر سے زائد عورتوں ميں ولادت آپريشن كے ذريعہ ولادت اكسٹھ ( 61 % ) فيصد تك جا پہنچتى ہے ( مثلا كا Obstetrical forceps استعمال ) تك ہوتا ہے، جبكہ كم عمر ميں يہ تناسب پنتيس فيصد ( 35 % ) ہے.
ديكھيں: WILLIAM M. GILBERT, THOMAS S. NESBITT, and BEATE DANIELSEN(1999): Childbearing Beyond Age 40: Pregnancy Outcome in 24,032 Cases .Obstetrics & Gynecology;93: 9-14.
ـ (Down Syndrome ) جيسى منگولى بچہ بيمارى ميں اضافہ:
عورت كى جتنى عمر زيادہ ہوتى جاتى ہے اسى طرح ہر بر ساس بيمارى ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نئے اعداد و شمار يہ ثابت كرتے ہيں كہ چاليس برس سے زيادہ والى عورت كو يہ بيمارى تيس برس سے نيچلى عمر والى عورتوں كى بنسبت نو فيصد زيادہ ہوتى ہے.
جبكہ چاليس برس ميں ايك فيصد سے كم اور چاليس برس سے زيادہ ميں تين فيصد تك جا پہنچى ہے، ليكن ابھى تك اس نسبت ميں ماں كى عمر زيادہ ہونے ميں بيمارى كا اضافہ ہونے كے اسباب و عوامل واضح نہيں ہو سكے.
ديكھيں: Yana Mikheeva : Pregnancy After 35 Years : www. Safepregnancy.com)-
- McNally RJ, Rankin J, Shirley MD, et al.( 2008): Space-time analysis of Down syndrome: results consistent with transient pre-disposing contagious agent. Int J Epidemiol. May 8.
اس كے ساتھ ساتھ موروثى بيماريوں كے لگنے كى فرصت اور ميڈيكل مشكلات ميں اضافہ ہو جاتا ہے، جن كى وجہ سے ماں اور بچہ دونوں ايك ہى وقت ميں متاثر ہوتے ہيں، جن كى واقفيت مخصوص ميڈيكل سرچ كے ليے كى جا سكتى ہے، جن ميں بعض كى طرف ہم اشارہ كر چكے ہيں.
ليكن جس سوال كى طرف ہمارا متنبہ ہونا ضرورى ہے كہ: ان اعداد و شمار كا معنى كيا ہے ؟
كيا اس كا معنى يہ ہے كہ يہ اعداد و شمار عمر كے اس مرحلہ ميں عورتوں كو حمل سے روكنا ہے ؟
اس كا جواب دينے سے قبل يہاں ہم ايك چيز كى طرف اشارہ كرنا چاہتے ہيں كہ دور قديم ميں نسوى امراض اور ولادت كے ماہر اطباء كے ہاں حمل كے ليے بہتر عمر بيس سے تيس برس تھى، اور تيس سے چونتيس برس كى عمر ميں كچھ غلط نتائج كا احتمال تھا، اور چونتيس سے انتاليس برس كى عمر ميں حمل غير مرغوب تھا، اور چاليس برس كى عمر سے اوپر حمل سے اجتناب كرنا ضرورى تھا.
ليكن ميڈيكل كى ترقى اور آلات و وسائل ميں جدت آنے اور خاص كر حمل كى ديكھ بھال كے وسائل اور مختلف ا مراض كا وقت سے قبل انكشاف كيے جانے كى وجہ سے يہ نظريہ اب بہت زيادہ تبديل ہو چكا ہے.
اور عملى طور پر واقعات بھى اس كى گواہى ديتے ہيں؛ وہ اس طرح كہ يورپى اعداد و شمار اور سروى كے مطابق يورپ ميں تيس برس كى عمر سے زيادہ ميں حمل بڑھ گيا ہے، اور اس كے كئى ايك اسباب و عوامل ہيں:
مثلا: شادى دير سے ہونا، اور عورت كا اپنى ملازمت كا اہتمام كرنا، اور شادى كے بعد پہلے حمل ميں زيادہ مدت كا وقفہ اس كے ساتھ ساتھ طلاق جيسے واقعات كى كثرت.
ديكھيں: Francis HH(1985): Delayed childbearing. IPPF Med Bull. Jun;19(3):3-4.-
اسى ليے اس وقت اس اہم معاملہ ميں سرچ و بحث كى طرف نظريں اٹھ رہى ہيں كہ:
آيا اس عمر ميں حمل كى صورت ميں عورت كو خطرات كا سامنا ہے يا نہيں ؟
اس كا جواب ہميں ( Chervenak JL ) اور ( Kardon NB ) دونوں نے ديا ہے، ان دونوں كے سروے كے مطابق يہ واضح ہوا ہے كہ تيس برس كى عمر سے اوپر ـ عام طور پر يورپ ميں ـ ميں حمل كا تناسب بہت زيادہ بڑھ گيا ہے.
اور اس بحث كے آخر ميں جبكہ ہم عمر كے مختلف مراحل ميں حمل كے خطرات كا مختلف جوانب سے احاطہ كرنے اور جواب دينے كے بعد يہ دونوں ہى ايك حرفى بات كہتے ہيں:
" اس كے باوجود كہ يہ خطرات كا تناسب زيادہ ہے ليكن پھر بھى پنتيس برس كے زائد كى عورتوں كو نہيں چاہيے كہ وہ اپنى زيادہ عمر كو بچے پيدا كرنے ميں مانع بنائيں، اور ڈاكٹروں كو چاہيے كہ وہ حمل كى ديكھ بھال كے بعد ولادت كے لازمى معاملات پورے كريں. اھـ
ديكھيں: Chervenak JL and Kardon NB (1991): Advancing maternal age: the actual
risks.Female patient. Nov;16(11):17-24) .
اوپر بيان كيے گئے ميڈيكل نوٹس جن كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ ڈاكٹر محمد فرحات كے جمع كردہ ہيں.
اوپر جو كچھ بيان كيا گيا ہے اس كى بنا پر ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ پنتيس برس حتى كہ چاليس برس كى عمر كے بعد حمل ميں اس طرح كے خطرات نہيں ہيں جن كا تصور ہم كرتے ہيں، اس عمر ميں ہر حاملہ عورت كو پريشانى ہو گى، خاص كر اس وقت تو ميڈيكل لائف بہت ترقى كر چكى ہے اور اس ميں جدت پيدا ہو چكى ہے؛ آخرى سرچ كے مطابق يہ ہے ہم سے يہ چيز مطالبہ كرتى ہے كہ: ہم لوگ اس معاملہ ميں ميڈيكل ديكھ بھال زيادہ كريں؛ جو كہ بالكل اصل ميں اولاد پيدا كرنے ميں مانع نہيں ہے.
اور اگر كوئى مخصوص حالت ہو جسے اس كى خصوصيات حاصل ہوں، يا پھر اس عورت كو كچھ مخصوص خطرات اور خدشات ہوں، يا اس عورت كى طبى حالت مخصوص ہو جس كى بنا پر يہ چيز اس كى مشكلات ميں اضافہ كا باعث بنے تو ان حالت كے پيش نظر حمل ٹھرانے ميں وقفہ كرنے يا اس خاص حالت كى بنا پر حمل نہ ٹھرانے كا فيصلہ كرنے ميں مانع نہيں جبكہ خاوند اور بيوى دونوں اپنى مصلحت كو مدنظر ركھيں اور جو مناسب سمجھيں فيصلہ كريں.
مجمع فقہ الاسلامى كميٹى كى قرار ميں درج ہے:
" مجمع فقہ اسلامى كے ممبران اور اس ( نسل منظم كرنے ) موضوع كے ماہرين كى جانب سے پيش كردہ رپورٹس ديكھنے اور اس كے متعلق كيے گئے مناقشات سننے كے بعد.
اور اس بنا پر كہ شريعت اسلاميہ ميں نكاح كے مقاصد ميں اولاد پيدا كرنا، اور نوع انسانى كى حفاظت كرنا ہے، اور اس اہم مقصد كو ختم نہيں كيا جا سكتا؛ كيونكہ اس مقصد كو ختم كرنا نصوص شرعيہ كے مخالف ہيں جن ميں كثرت نسل اور اس كى حفاظت اور ديكھ بھال كا اشارہ كيا گيا ہے، كہ نسل كى حفاظت ان پانچ كليات ميں شامل ہے جس كى ديكھ بھال كا شريعت حكم ديتى ہے يہ فيصلہ كيا گيا ہے كہ:
اول:
كوئى بھى ايسا قانون جارى كرنا جائز نہيں جو خاوند اور بيوى كے ليے اولاد پيدا كرنے كى آزادى كو سلب كر كے تحديد نسل كرنے كا باعث ہو.
دوم:
مرد يا عورت ميں اولاد پيدا كرنے كى صلاحيت كو ختم كرنا حرام ہے، اور يہ بانجھ پن كے نام سے معروف ہے، جب تك اس كو ختم كرنے كے ليے شرعى اصولوں اور معيار كے مطابق كوئى ضرورت پيش نہ آ جائے.
سوم:
اولاد پيدا كرنے ميں وقتى اور مدت ميں كنٹرول كرنا جائز ہے تا كہ حمل ميں وقفہ زيادہ ہو، يا پھر جب كوئى شرعى اصول كے مطابق ضرورت پيش آ جائے اور خاوند و بيوى اس كو چاہيں تو وقتى طور پر حمل نہ ٹھرنے دينا جائز ہے، اس ميں دونوں كا مشورہ اور رضامندى ضرورى ہے، اور شرط يہ ہے كہ ايسا كرنے ميں كوئى نقصان و ضرر نہ ہوتا ہو، اور پھر وسيلہ بھى مشروع ہو، اور ٹھرے ہوئے حمل پر زيادتى نہ كى گئى ہو " انتہى
ديكھيں: ميگزين مجمع الفقہ عدد نمبر ( 5 ) جلد اول صفحہ ( 748 ).
واللہ اعلم .