الحمد للہ.
اول:
انسان جو غم اور پريشانى محسوس كرتا ہے وہ بعض اوقات مرض بھى ہو سكتا ہے جس كے علاج معالجہ كى ضرورت ہوتى ہے اس سلسلہ ميں تجربہ كار اور اسپيشلسٹ افراد سے رابطہ كريں.
اور بعض اوقات يہ تنگى اور غم ہو سكتا ہے جو بہت سارے امور سے زائل ہو گا مثلا عبادت اور اللہ كا ذكر اور دعائيں اور صحيح اذكار اور نيك و صالح اعمال اور اچھے كام كرنا.
اس سلسلہ ميں آپ سوال نمبر ( 22704 ) اور ( 21515 ) اور ( 100774 ) كے جوابات كا مطالعہ كر كے مستفيد ہو سكتى ہيں.
بہر حال اللہ سبحانہ و تعالى نے جو كوئى ايسى بيمارى نہيں اتارى جس كى دوائى اور علاج نہ اتارا ہو، اس ليے يہ غم اور پريشانى كيسى بھى ہو اس كا علاج ہو سكتا ہے، اور مومن كو چاہيے كہ وہ صبر و تحمل اور يقين اپنائے، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے بكثرت سوال كرے اور اللہ كى طرف رجوع كرے.
كيونكہ خير و بھلائى كى كنجياں تو اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاتھ ميں ہيں، اور پھر كتنے ہى مومن مرد عورتيں ايسى ہيں جنہوں نے آزمائش يا بيمارى پر حرام كام كا ارتكاب كيے بغير ہى صبر و تحمل كيا، كيونكہ ايسا تو جزع فزع كرنے اور مبغوض شخص كرتے ہيں جو اللہ كى تقدير پر صبر نہيں كرتے، اور جو بيمارى اور مشكل انہيں آتى ہے وہ اس سے كسى بھى وسيلہ اور ذريعہ سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہتے ہيں چاہے اس ميں ان كے ليے ديناوى يا اخروى شقاوت و بدبختى ہى ہو.
دوم:
عورت كے ليے بغير كسى شرعى عذر و سبب كے جس كى بنا پر خاوند كے ساتھ زندگى بسر كرنا مشكل ہو جائے طلاق طلب كرنا جائز نہيں، مثلا خاوند برا سلوك كرتا ہو، يا پھر بيوى خاوند سے نفرت كرتى ہو كہ وہ خاوند كا حق ہى ادا نہيں كر سكے.
كيونكہ ابو داود اور ترمذى اور ابن ماجہ ميں حديث مروى ہے ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خلع لينے والياں منافقات ہيں "
طبرانى الكبير ( 17 / 339 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 1934 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اگر فرض كريں كہ بيوى غصہ كى حالت يا پھر مرض اور پريشانى كى حالت ميں اپنے خاوند سے طلاق كا مطالبہ كرتى ہے اور جب اس كا غصہ ٹھنڈا ہو تو اسے اپنى غلطى كا ادراك ہو جائے اور اسے اپنے پرردگار سے استغفار كرنى اور خاوند سے معذرت كرنى چاہيے.
اور اگر خاوند كى سوء معاشرت اور برے سلوك كى بنا پر عورت كو پريشانى اور غم ہو، يا خاوند كو ناپسند كرنے كى وجہ سے اور يہ چيز عورت كے خاندان كے معتبر افراد كے ہاں ثابت ہو جائے تو انہيں ان كے مابين صلح كرانے كى كوشش كرانى چاہيے، اور بيوى كو اس پريشانى اور غم سے نكالنے كے ليے انہيں خاوند كے ساتھ مشورہ اور بات چيت كرنى چاہيے.
ہم سوال كرنے والى كو نصيحت كرتے ہيں كہ اس نے يہ بيان كيا ہے كہ اس كى پريشانى كا سبب اپنے گھر والوں سے دورى ہے، اسے ہمارى نصيحت ہے كہ اس پر صبر كرے اور اس پريشانى كو حل كرنے كى كوشش كرے.
اور ـ غالبا ـ فارغ انسان كو ہى پريشانى اور غم لاحق ہوتا ہے جو اپنے آپ كو كسى فائدہ مند كام ميں مشغول نہيں ركھتا نہ تو آخرت كے كاموں ميں اور نہ ہى دينى امور ميں.
اس ليے آپ كسى مفيد كام ميں اپنے آپ كو مشغول ركھيں مثلا آپ قرآن مجيد حفظ كلاس ميں شامل ہو جائيں، اس طرح آپ كو ثقہ اور بااعتماد بہنوں سے بھى تعارف ہو جائيگا جو دين و اخلاق كى مالك ہونگى، اور اس طرح ايك دوسرے كا فائدہ مند كام ميں معاونت كرينگى.
اور اسى طرح آپ كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ اپنے خاوند سے اس پر متفق ہو جائيں كہ وقتا فوقتا آپ اپنے گھر والوں كو ملنے جايا كرينگى، اور ہم آپ كے گھر والوں كو بھى اس پر ابھارتے ہيں كہ وہ بھى آپ كو ملنے جايا كريں.
اور خاوند كو چاہيے كہ اس كى بيوى كى جانب سے جو كچھ حاصل ہو اسے اس پر صبر و تحمل كرنا چاہيے، اور بيوى كا اس سلسلہ ميں ہاتھ پكڑے تا كہ وہ اس پريشانى سے نجات حاصل كر سكے.
اس ليے خاوند اور بيوى اور بيوى كے گھر والوں كا ايك دوسرے سے تعاون كرنا ضرورى ہے، تا كہ معاملات طبعى حالت ميں واپس ہوں جائيں.
رہا مسئلہ طلاق كا تو آپ طلاق كے بارہ ميں مت سوچيں بلكہ اپنى پريشانى پر قابو پائيں اور اللہ سبحانہ و تعالى سے مدد مانگيں، اور كثرت سے دعا كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے حالات كى اصلاح فرمائے اور آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .