اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مصیبت پر صبر کرنا افضل ہے یا مصیبت کے خاتمے کی دعا کرنا؟

سوال

اللہ تعالی سے مصیبت رفع کرنے کی دعا مانگنا افضل عمل ہے یا مصیبت پر صبر کرنا افضل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مصیبت رفع کرنے کی غرض سے اللہ تعالی سے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ افضل ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں آزمائشوں سے عافیت مانگنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (دشمن سے جنگ کی تمنا مت کرو، بلکہ اللہ تعالی سے عافیت مانگو) اس حدیث کو امام بخاری: (7237) اور مسلم : (1742) نے روایت کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مریض کی عیادت کرتے تو دعا فرمایا کرتے تھے: اللَّهُمَّ أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ ، فَأَنْتَ الشَّافِي ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا یعنی: یا اللہ! لوگوں کے پروردگار بیماری دور کر دے، اور شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے بنا کوئی شفا نہیں، یا اللہ! ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری نہ چھوڑے۔
اس دعا کو ترمذی: (3565) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ایسے ہی ایک بار سیدنا عثمان بن ابو عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (اپنے جسم کی درد والی جگہ پر ہاتھ رکھو اور تین بار کہو: بسم اللہ، بسم اللہ، بسم اللہ۔ پھر سات بار کہو: { أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ}یعنی: میں اللہ تعالی کی ذات اور قدرت کی پناہ چاہتا ہوں اس بیماری سے جو مجھ میں ہے یا جس کا مجھے خدشہ ہے۔ ) مسلم: (2202)

پھر اللہ تعالی نے بھی تمام انبیائے کرام کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے بھی اللہ تعالی سے تکلیف رفع کرنے کی دعائیں کی ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِي الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ [83] فَاسْتَجَبْنَا لَهُ
ترجمہ: ایوب نے جب اپنے پروردگار کو پکارا کہ: مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو ہی رحم کرنے والا ہے [83]تو ہم نے ان کی دعا قبول کی۔ [الأنبياء:38 ، 84]

اسی طرح سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنْ الظَّالِمِينَ [87] فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنْ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ
 ترجمہ: مچھلی والے کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیے اور خیال کیا کہ ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے! بالا آخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہو گیا۔ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور ہم نے اسے غم سے نجات دی، اور اسی طرح ہم مومنین کو نجات دیتے ہیں۔[الأنبياء:87 ، 88]

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ثابت ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر لبید بن اعصم یہودی نے جادو کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اللہ تعالی سے اس آزمائش سے عافیت مانگی۔

چنانچہ صحیح مسلم: (2189) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بنی زریق کے لبید بن اعصم نامی یہودی نے جادو کر دیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا مزید بتلاتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خیال ہونے لگا کہ انہوں نے کوئی کام کر لیا ہے لیکن حقیقت میں آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، پھر ایک رات یا دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی، پھر دوسری بار بھی دعا کی، پھر تیسری بار بھی دعا کی، اور پھر کہا: عائشہ: کیا آپ کو محسوس ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے میرے مسئلے کا حل بتلا دیا ہے ۔۔۔ الخ

علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
" حدیث کے الفاظ: [پھر ایک رات یا دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی، پھر دوسری بار بھی دعا کی، پھر تیسری بار بھی دعا کی] یہ دلیل ہے اس بات کی کہ جب بھی کوئی پریشانی ہو تو دعا کی جائے اور بار بار کی جائے، اور اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔" ختم شد

اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مصیبت رفع کرنے کی دعا اور صبر کرنے میں کوئی تعارض ہے ہی نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ہمیں دعا کرنے کا کہا کہ ہم اس کے سامنے پوری طرح گڑگڑا کر دعائیں کریں، ہمارا دعا کرنا بھی اللہ تعالی کی عبادت ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
 ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ: تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔[غافر:60]

اسی نے ہمیں صبر کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور صبر کرنے پر ڈھیروں اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا اور فرمایا:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
ترجمہ: یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ [غافر: 60]

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اللہ تعالی سے دعا مانگی ، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ صبر کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر سب سے زیادہ راضی رہنے والے ہیں، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرنا صبر کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ صبر در حقیقت اپنے آپ کو تقدیری فیصلوں پر ناراضی سے بچانے کا نام ہے۔

اس لیے اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان دعا اور صبر دونوں عبادات بیک وقت کرے، بلکہ یہ افضل ترین کیفیت ہے ؛ کیونکہ یہی کیفیت ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب