الحمد للہ.
سب تعريفات اللہ سبحانہ و تعالى كى ہيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر اللہ كى رحمتيں نازل ہوں.
اما بعد:
حفظ قرآن مكمل كرنے كى تقريب اور جشن منانا سنت نہيں، كيونكہ يہ نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہى صحابہ كرام سے، اس ليے اسے دين سمجھ كر كرنا بدعت شمار ہو گا، ليكن عام لوگ اسے ايك عادت سمجھ كر كرتے ہيں جس ميں وہ حفظ قرآن كى نعمت پر خوشى و فرحت كا اظہار كرتے ہيں، بالكل اسى طرح جس طرح كوئى گھر سے غائب ہو اور واپس آئے تو خوشى منائى جاتى ہے، يا پھر كسى كو كوئى ملازمت ملے تو خوشى كرتے ہيں، يا كوئى اچھا گھر مل جائے تو خوشى كى جاتى ہے.
اس ليے اگر اس بنا پر حفظ قرآن كى تكميل كى تقريب ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر اس ميں بغير كسى تحديد اور تعيين كے قرآن كے ابتدا يا آخر سے كچھ آيات تلاوت كى جائيں يعنى آخر كو پہلے سے نہ ملايا جائے تو يہ بہتر ہے.
كيونكہ مجالس ميں تلاوت قرآن كرنا سب سے بہتر ہے اور وہاں جمع حاضرين كو نصيحت كى جائے، ليكن قرآن مجيد كى تلاوت ختم ہونے كے وقت دعا كرنے كے بارہ ميں صحابى رسول انس رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب وہ قرآن مجيد ختم كرتے تو اپنے اہل و عيال كو جمع كر كے دعا كرتے تھے، اس ليے اگر قرآن مكمل ہونے پر تلاوت كرنے والا دعا كرے اور وہاں حاضرين آمين كہيں تو يہ بہتر ہے.
معلمہ كو استانى يا شيخہ كا نام دينے ميں كوئى حرج نہيں اس ليے سائلہ اللہ آپ كو بركت عطا فرمائے آپ كو علم ہونا چاہيے كہ آپ نے جس تقريب كا ذكر كيا ہے اس ميں كوئى مانع نہيں، ليكن قرآن مجيد كى آخرى سورۃ پڑھ كر اسے ابتدا سے ملانے كى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ اس طرح كرنے كى كوئى دليل ہونى چاہيے، اس ليے كہ قرآن مجيد كى تلاوت عبادت ہے اور عبادت ميں وہى طريقہ اور كيفيت اختيار كرنا واجب ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں اسوہ حسنہ اور بہترين نمونہ ہے جو اللہ تعالى آخرت كے دن كى اميد ركھتا اور بہت زيادہ اللہ كا ذكر كرتا ہے .
كتبہ: فضيلۃ الشيخ عبد الرحمن البراك
اور حديث الحال المرتحل جسے امام ترمذى ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كرتے ہيں:
ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اللہ كے ہاں كونسا عمل زيادہ محبوب ہے ؟
تو آپ نے فرمايا: الحال المرتحل
اس نے عرض كيا: الحال المرتحل كيا ہے ؟
آپ نے فرمايا:
جو اول قرآن كو آخر كے ساتھ ملاتا ہے جب بھى ختم ہو دوبارہ شروع كر دے "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے جيسا كہ امام ترمذى رحمہ اللہ نے اس حديث كو بيان كرنے كے بعد كہا ہے يہ حديث غريب ہے اس طريق كے علاوہ ہم اسے ابن عباس سے نہيں جانتے اور اس كى سند قوى نہيں.
اس ليے ابن قيم رحمہ اللہ اس حديث كو ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
" اس سے بعض نے يہ سمجھا ہے كہ جب قرآن مجيد ختم ہو جائے تو سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرۃ كى تين آيات پڑھنا ضرورى ہيں، كيونكہ وہ فارغ ہوا اور پھر شروع كرے، ليكن صحابہ كرام اور تابعين سے ايسا كرنا ثابت نہيں، اور نہ كى كسى امام نے اسے مستحب قرار ديا ہے.
حديث سے مراد يہ ہے كہ جب بھى كسى غزوہ سے واپس آئے اور دوسرے كے ليے سفر شروع كر ديا، يا پھر كسى بھى عمل سے فارغ ہوئے تو دوسرے ميں شروع ہو گئے، تا كہ جس طرح پہلا مكمل ہوا ہے دوسرا بھى مكمل ہو.
ليكن جو بعض قراء كرام كرتے ہيں اس حديث سے قطعا وہ مراد نہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ديكھيں: الاعلام ( 2 / 289 ).
واللہ اعلم .