الحمد للہ.
اول:
ايك سے زائد بيوياں ركھنے والے شخص پر جو عدل كرنا واجب ہے وہ يہ كہ: اپنى بيويوں كے خرچ ميں عدل كرے، اور رات بسر كرنے ميں، اور رہائش ميں اور لباس ميں، ان تينوں اشياء كى تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 10091 ) كے جواب ميں ملے گى اس كا مطالعہ ضرور كريں.
اور ہديہ و تحفہ ميں بيويوں كے مابين برابرى كرنا لازم نہيں، جيسا كہ سوال نمبر ( 13268 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، اگرچہ افضل يہى ہے كہ وہ اس ميں بھى بيويوں كے مابين برابرى كرنے كى كوشش كرے، اور يہى بہتر ہے تا كہ اس كى بيويوں كے مابين ان كى غيرت كى بنا پر غلط اثرات نہ پڑيں.
دوم:
گھر كے ليے ملازمہ كے بارہ ميں عرض يہ ہے كہ:
1 ـ خادمات يعنى گھريلو ملازمات كو ان كے ملك سے لانے كے متعلق ہم تفصيل كے ساتھ كلام كر چكے ہيں، اور ان ممنوعہ اشياء كے متعلق بھى كھل كر بات ہوئى ہے جو ملازمات كى وجہ سے گھروں ميں پيدا ہوتى ہيں اور گھر والے اس ميں پڑتے ہيں اس كى تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 26282 ) كے جواب ميں ملے گى لہذا اس كى اہميت كى خاطر آپ مطالعہ ضرور كريں.
2 ـ اگر گھر ميں ملازمہ كى موجودگى سے كوئى شرعى ممانعت نہ پائى جاتى ہو تو پھر آپ كے خاوند نے جو كيا ہے كہ ايك دن آپ كے گھر ميں اور ايك دن آپ كى سوكن كے گھر ميں كام كريگى اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن خاوند كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ جس بيوى كے پاس اولاد زيادہ ہے اس كے اخراجات اس بيوى كى طرح نہيں جس كى اولاد كم ہے، يا پھر جس كى اولاد كوئى نہيں، اور خادمہ كے متعلق بھى اسے يہى چيز كا خيال كرنا چاہيے، ايك گھر بڑا ہونے اور اس ميں كام زيادہ ہونے ميں دونوں گھروں ميں ملازمہ كے كام كى تقسيم عدل نہيں جس كے متعلق خاوند كا خيال ہے كہ اس نے عدل كر ليا ہے بلكہ اسے ان امور كا خيال كرنا چاہيے، ہو سكتا ہے ايك بيوى بالكل ہى ملازمہ كى محتاج نہ ہو، اس ميں فرق پايا جاتا ہے كہ ايك گھر ميں ملازمہ كا كام كرنا ضروريات ميں يا شديد حاجت ہو، اور دوسرى گھر ميں ملازمہ كا كام كرنا كمال ميں شامل ہوتا ہو! اس ليے خاوندوں كو اس كا بھى خيال كرنا چاہيے اور گھر كے كام كاج ميں معاونت كرنى چاہيے، اور اسى طرح ان پر يہ بھى واجب ہے كہ وہ گھر كے افراد كى تعداد كو بھى مد نظر ركھ كر اخراجات كى تقسيم كريں كہ ان كى ضروريات زيادہ ہيں اور جس كے افراد كم ہيں ان كى ضروريات بھى كم.
سوم:
قسم كا كفارہ مال كى شكل ميں فقراء كو ادا نہيں كيا جا سكتا، بلكہ اس كو غلہ اور كھانا كى شكل ميں ادا كرنا واجب ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ تعالى تمہارى لغو قسموں كا مؤاخذہ نہيں كرتا، ليكن مؤاخذہ اس پر كرتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كرو، اس كا كفارہ يہ ہے كہ دس مسكينوں كو اوسط درجہ كا كھانا دينا جو اپنے گھر والوں كو كھلاتے ہو، يا ان كو كپڑا دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، جس كو اس كى طاقت نہ ہو وہ تين روزے ركھے يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم اٹھاؤ اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان كرتا ہے تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 89 ).
اس كى تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 45676 ) كے جواب ميں ملے گى اس كا مطالعہ كريں.
خاوند كى بات سچى ہے كہ قسم كا كفارہ آپ كو اپنے خاص مال سے ادا كرنا ہے، اور يہ ظاہر نہيں ہوتا كہ آپ كا اپنے ان اخراجات ميں سے كفارہ ادا كرنا جو اس نے آپ كے ليے محدد كر ركھے ہيں آپ كى حق تلفى ہے، يا آپ پر كوئى تشديد اور سختى ہے، اور اس ذہين خاوند نے مقتضى حال كو ديكھنا ايك اہم چيز ہے اس نے تمہارے حال كى قدر كى اور اس كا خيال ركھا ہے جو آپ كے حال كے ليے صحيح اور اصلاح كے ليے ہے.
ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ خاوند كے ليے آپ كى جانب سے كفارہ كا كھانا دينا جائز نہيں، اور اگر وہ ايسا كرتا ہے تو ظلم شمار ہو گا! بلكہ يہ اس كى فہم كا خلل ہے كہ ايسا كرنا بيويوں كے عدل كے منافى ہے، اور بلاشك و شبہ آپ كى جانب سے قسم كے كفارہ ميں كھانا كھلانا حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے، اور اس سے دوسرى بيوى كو بھى اسى طرح دينا لازم نہيں آتا كہ جتنا تمہارے ليے خرچ كيا ہے اتنا ہى اسے بھى دے.
كسى بھى اہل علم نے يہ نہيں كہا، اور نہ ہى سلف رحمہ اللہ ميں سے جس نے بھى ايك سے زائد بيوياں ركھيں ان ميں سے كسى ايك سے يہ معروف ہے.
چہارم:
عدل واجب كو مقرر كرنے كا مرجع ايك سے زائد ركھنے والا خاوند نہيں اور نہ ہى جس كى ايك بيوى ہے وہ اس كو مقرر كر سكتا ہے ، بلكہ اس كو تو شريعت نے مقرر كرنا ہے اور كتاب و سنت كى نصوص ہى خاوند پر لازم كرتى ہيں كہ جو شريعت نے خاوند پر مقرر كيا ہے وہ اس كى ادائيگى كرے.
اور نہ ہى صرف لوگوں كے حكم كى بنا پر خاوند كا اپنى بيويوں ميں عدل كرنا ثابت ہو گا، بلكہ خاوند جو بالفعل عمل كرتا ہے اس سے پتہ چلےگا كہ وہ كتنا عدل كر رہا ہے، كيونكہ كچھ امور ايسے ہيں جو لوگوں سے پوشيدہ ہيں جن كا ظاہر ظلم معلوم ہوتا ہے ليكن اس كى حقيقت عدل ہے، اور اسى طرح اس كے برعكس بھى، اس ليے ممكن ہے كہ لوگوں كے ليے اس خاوند كا عدل ظاہر ہوتا ہو ليكن حقيقت ميں سب سے بڑا ظالم ہو.
آخر ميں ہم خاوند كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ بيويوں ميں شريعت كے مطابق واجب كردہ عدل بجا لائے، اور دونوں گھروں كو چلانے ميں حكمت سے كام لے، اور ہر حقدار كو اس كا حق ادا كرے، اور دونوں گھروں ميں جو فرق اور اختلاف ہے اس كو مدنظر ركھے، اگر ايك گھر ميں اس كى اولاد ہے اور دوسرے گھر ميں اس طرح نہيں تو يہ ان كى ديكھ بھال اور اخراجات اور تربيت و خدمت كى مستوجب ہے، جو دوسرى بيوى پر ظلم نہ ہو اور اس سے ايك سے زائد بيوياں ركھنے كا شرعى مقصد بھى پورا ہو جائے.
اسى طرح ـ ميرى سائل بہن ـ آپ كو بھى چاہيے كہ اپنے خاوند كے ساتھ نرمى كا رويہ اختيار كريں، اور اس كے ساتھ معاملات كرنے ميں احسن اسلوب اختيار كريں، اور آپ كو غيرت اس پر مت ابھارے كہ سارے امور و معاملات ميں باريك بينى كے ساتھ محاسبہ كرنا شروع كر ديں؛ كيونكہ يہ سب كچھ خاوند كے ليے پريشانى كا باعث بنےگا، اور اس گھر ميں رہنے كى ناپسنديدگى پيدا كريگا جس گھر ميں جا كر اسے سردرد ہونا شروع ہو جائے! خاص كر جبكہ آپ كے خاوند كا ظاہر دين و اصلاح والا معلوم ہوتا ہے، اور وہ خير و بھلائى كى حرص ركھنے والا ہے، اس ليے آپ خير و بھلائى ميں اس كى معاون بن كر رہيں نہ كہ شيطان كى معاون بنيں.
اس كا يہ معنى نہيں كہ آپ اپنا حق بھى چھوڑ ديں، بلكہ آپ كا حق تو شرعى طور پر مكفول ہے، ليكن آپ حق طلب كرنے ميں احسان كو مت بھوليں، اور حق لينے ميں معافى اختيار كريں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور احسان كرو يقينا اللہ تعالى احسان كرنے والوں سے محبت كرتا ہے البقرۃ ( 195 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور تم معاف كر دو، يہ تقوى كے زيادہ قريب ہے، اور آپس ميں فضل كو مت بھولو، يقينا اللہ تعالى ديكھنے والا ہے جو تم عمل كر رہے ہو البقرۃ ( 237 ).
امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں جابر بن عبد اللہ رضى اللہ عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى اس شخص پر رحم كرے جو آسانى كرتا ہے جب فروخت كرتا ہے، اور جب خريدتا ہے، اور جب اپنا حق طلب كرتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2076 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو خير و بھلائى پر جمع ركھے، اور آپ كو اپنى رضامندى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .