الحمد للہ.
ہم نے يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى كے سامنے ركھا تو ان كا جواب تھا:
وہ اتنى رقم لينے كا حق ركھتا ہے جتنا اس كا نقصان اور خسارہ ہوا ہے، اور اس سے زائد لينا جائز نہيں كيونكہ وہ سود ہے.
پھر اگر ہم فرض كرليں كہ يہ بطور جرمانہ اور سزا ہے تو يہ مسلمانوں كے بيت المال كا ہے، اور اس ميں اس كا كوئى حق نہيں.
سوال: ؟
اگر وہ اس كى وجہ جواز ميں يہ كہيں كہ: اس كا حق تو يہ تھا كہ آج سے دس برس قبل اسے يہ رقم ملتى اور اگر وہ دس برس قبل ليتا تو وہ اس سے فائدہ حاصل كرتا اور اس كى سرمايہ كارى كرتا، تو يہ زيادہ رقم اس سارى مدت ميں اس رقم كو روكے ركھنے كے عوض ميں ہے؟
جواب:
شرعى طور پر يہ جائز نہيں ہے، كيونكہ: پہلى بات تو يہ ہے كہ:
ہو سكتا ہے اگر وہ يہ رقم اس وقت حاصل كرتا اور اس سے كوئى كام كرتا تو اسے خسارہ ہو جاتا.
اور دوسرى بات يہ ہے كہ: ادائيگى كى تاخير كے مقابلے ميں رقم زيادہ لينا جائز نہيں، جيسا كہ بيان بھى كيا جا چكا ہے.
سوال: ؟
كيا اس معاملہ ميں يہ چيز اثر انداز ہو گى كہ يہ زيادہ پہلے سے مشروط نہيں تھا ؟
جواب:
كوئى اثر انداز نہيں ہو گا، اگرچہ پہلے ہى سے يہ غير مشروط ہو تو پھر بھى زيادہ رقم لينا جائز نہيں، پھر يہ تو معلوم ہى ہے كہ: رقم كى ادائيگى كرنے والا اس كى ادائيگى پر مكرہ يعنى مجبور ہے. انتھى .