جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ کےلیےخلاف کی وصیت فرمائ تھی ؟

12103

تاریخ اشاعت : 20-04-2004

مشاہدات : 10569

سوال

ان لوگوں کےبارہ میں کیا حکم ہے جن کا خیال ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کے لیے خلافت کی وصیت فرمائ تھی ، اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم نے ان کے خلاف سازش کی تھی ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

مسلمانوں میں سے کوئ بھی گروہ اس کا قائل نہیں صرف شیعہ ہی اس کے قائل ہیں ، حقیقتا یہ قول باطل ہے جس کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث میں کوئ اصل نہیں ملتی ۔

بلکہ دلائل اس پرتودلالت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ابوبکر صدیق رضي اللہ تعالی عنہ ہوں گے ، اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ کرام سے بھی یہی دلیل ملتی ہے ۔

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاس پر صریح نص نہیں ملتی اورنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئ قطعی وصیت فرمائ لیکن کچھ ایسے حکم دییے جس سے اس کا استدلال ملتا ہے کہ وہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں انہیں لوگوں کونماز پڑھانے کا حکم دیا ۔

اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ نے اپنے بعد خلافت کے بارہ میں ان کے متعلق ہی ذکرکرتے ہوۓ فرمایا

( مومن اوراللہ تعالی اس کا انکار کرتے ہیں سواۓ ابوبکر کے ) اسی لیے صحابہ کرام نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی بیعت کرلی اوراس اجماع کرلیا کہ ان میں سے سب سےافضل ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔

عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں یہ ثابت اورموجود ہےکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ميں یہ کہا کرتے تھے :

( اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ ہیں اوران کے بعد عمر رضي اللہ تعالی عنہ پھر عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اقرار کیا اورانہیں اس پرکچھ نہیں کہا ۔

اور اسی طرح علی رضي اللہ تعالی عنہ سے بھی تواتر کے ساتھ آثار مروی ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے :

( اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل اوربہترشخص ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ اورپھر عمر رضي اللہ تعالی عنہ ہیں ) ۔

اورعلی رضي اللہ تعالی عنہ یہ بھی کہا کرتے تھے :

( میرے پاس جوبھی اس لیے لایا گيا کہ اس نے مجھے ان دونوں پرفضیلت دی تومیں اسے افتراء کی حد لگاؤں گا )

تواس سے ثابت ہوا کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ اس بات کا دعوی نہیں کرتے تھے کہ وہ اس امت میں سب سے افضل ہیں ، اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خلافت کی وصیت ہی فرمائ ہے ، اور نہ انہوں نے کبھی یہ کہا کہ صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم نے ان پرظلم کرتے ہوۓ ان کا حق چھینا ہے ۔

اورجب فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کی وفات ہوئ توعلی رضي اللہ تعالی عنہ نے دوسری دفعہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی جو کہ پہلی بیعت کی تاکید تھی اورلوگوں کے اس اظہارکے لیے کہ وہ جماعت کے ساتھ ہیں ، اوران کے دل میں ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی بیعت کے متعلق کچھ نہیں ۔

اورجب عمررضي اللہ تعالی عنہ کوخنجرکے وار سے زخمی کیا گيا توانہوں نے عشرہ مبشرہ میں سے چھـ صحابہ کی ایک مجلس شوری قائم کی جن میں علی رضي اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے ، توعلی رضی اللہ تعالی عنہ نے عمررضي اللہ تعالی عنہ پراس کا انکار نہیں کیا نہ توان کی زندگي میں اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد بھی اس کا انکار کیا ۔

اورنہ ہی انہوں نے کبھی یہ کہا کہ وہ ان سب سے اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں تواب لوگوں کے لیے یہ کس طرح جائز ہوا کہ وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جھوٹ لگاتے ہوۓ یہ کہتے پھریں کہ انہوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے خلافت کی وصیت فرمائ تھی ۔

اورپھرعلی رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی بھی اس کا دعوی نہیں کیا اورنہ ہی صحابہ کرام میں سے کسی نے ان کے لیے یہ دعوی کیا ۔ بلکہ سب صحابہ کرام نے ابوبکر الصدیق ، عمربن الخطاب ، عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہم کی خلافت کے صحیح ہونے پراجماع کیا اوراس کا اعتراف علی رضي اللہ تعالی عنہ بھی کیا ہے ، اوریہی نہیں بلکہ ان سب کے ساتھ مل کرجھاد اورشوری میں ان کا تعاون بھی کرتے رہے ۔

پھرصحابہ کرام کے بعد مسلمانوں نے بھی اسی چيزپراجماع کیا جس پرصحابہ کرام کا اجماع تھا ، تواب نہ تولوگوں میں سے کسی ایک اوریا پھر کسی گروہ اورفرقہ نہ توشیعہ اورنہ دوسروں کے لیے یہ جائز کہ وہ یہ دعوی کریں کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی وصیت کی گئ تھی ، اور ان سے پہلے جس کی بھی خلافت تھی وہ باطل ہے ۔

اوراسی طرح یہ بھی جائزنہیں کہ کوئ یہ کہتا پھرے کہ صحابہ کرام نے علی رضي اللہ تعالی پرظلم کیا اوران کا حق چھینا ، بلکہ یہ ابطل الباطل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارہ میں سوء ظن ہے جو کہ جائزنہیں اور پھران صحابہ کرام میں علی رضي اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں ۔

اللہ تبارک وتعالی نے امت محمدیہ کی تنزيہ اوراس کی حفاظت فرمائ‏ ہے کہ یہ گمراہی پرجمع نہیں ہوسکتی ، اس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث وارد اورثابت ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میری امت میں سے ایک گروہ حق پرقائم رہے اوراس کی مدد کرتا رہے گا ) ۔

تواس طرح یہ مستحیل ہے کہ امت محمدیہ کسی باطل پراکٹھی ہوجاۓ اورپھر خاص کراس دورمیں جو کہ خیرالقرون ہے جو کہ ابوبکرالصدیق ، عمربن الخطاب ، عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہم کادور ہے اورپھرخاص کروہ لوگ جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل الناس ہیں ان میں اس کا وقوع ہو ۔

جوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول اوریوم آخرت پرایمان پرایمان رکھتا ہے وہ کبھی بھی یہ قول نہیں کہہ سکتا اورنہ ہی وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے ، اورایسے ہی جواسلامی حکم کی تھوڑی سی بھی بصیرت رکھتا ہواس سے بھی اس کا وقوع محال ہے ۔ .

ماخذ: شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کے فتاوی سے ۔ دیکھیں کتاب : فتاوی اسلامیۃ ( 1 / 46 )