الحمد للہ.
زلزلہ اللہ تعالی کی اس کائنات میں بہت بڑی نشانی ہے، اللہ تعالی اس میں اپنے بندوں کو یاد دہانی ، یا ڈرانے یا سزا دینے کے لیے مبتلا کرتا ہے، انسان کو چاہیے کہ جب زلزلہ آئے تو بارگاہ الہی میں اپنی کمزوری ناتوانی ، عاجزی اور لا چاری کا اظہار کرے، اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعا مانگے کہ زلزلے کی اس کیفیت کو سب لوگوں سے دور فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [42] فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [43] فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ
ترجمہ: آپ سے پہلے ہم بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیج چکے ہیں۔ پھر ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ عاجزی سے دعا کریں۔ [42] پھر جب ان پر ہماری طرف سے تکلیف آئی تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے؟ لیکن ان کے دل تو اور سخت ہو گئے اور جو کرتوت وہ کر رہے تھے شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھا دیئے [43] پھر جب انہوں نے وہ نصیحت بھلا دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا اس میں مگن ہو گئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ اچھے انجام سے مایوس ہو گئے [الانعام: 42 - 43]
اسی لیے فقہائے کرام نے زلزلہ آنے پر کثرت کے ساتھ استغفار، دعا، گریہ و زاری، اور صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے جیسے کہ سورج اور چاند کے گرہن لگنے پر یہ کام مستحب ہیں۔
علامہ زکریا انصاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زلزلے ، بجلی کڑکنے اور شدید تیز ہوا وغیرہ چلنے پر دعا کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں گڑگڑانا مستحب ہے، اسی طرح گھر میں اکیلے نماز بھی پڑھے تا کہ غافلوں میں شمار نہ ہو؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہوا چلنے پر فرمایا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيْهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيْهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے اس ہوا کی خیر اور اس چیز کی خیر مانگتا ہوں جو اس میں ہے اور اس کی بھی خیر مانگتا ہوں جس کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے، نیز میں اس ہوا کے شر، اور اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اس میں ہے اور اس کے شر سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جس کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے۔ مسلم" ختم شد
دیکھیں: "أسنى المطالب شرح روض الطالب" (1/288) ، مزید دیکھیں: "تحفة المحتاج" (3/65)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (2593 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
لیکن ہمارے علم کے مطابق ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ زلزلے کے وقت کسی مخصوص دعا یا ذکر کا کرنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہو، چنانچہ زلزلے کے وقت اپنے الفاظ میں اللہ تعالی سے رحمت طلب کریں، اور اللہ تعالی سے مدد مانگیں کہ اللہ تعالی لوگوں کو اس مصیبت سے محفوظ فرما دے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زلزلے، سورج گرہن، شدید اندھیری، اور سیلاب وغیرہ کے موقع پر فوراً اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگنی چاہیے، اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑائیں، اللہ تعالی سے عافیت اور معافی مانگیں، کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر کریں اور استغفار کریں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورج گرہن کے وقت فرمایا: (جب تم یہ دیکھو تو جلدی سے اللہ تعالی کے ذکر، دعا اور استغفار میں مشغول ہو جاؤ) متفق علیہ
اسی طرح غریبوں ، مسکینوں پر صدقہ کریں ان کا خیال رکھیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم دوسروں پر شفقت کرو، تم پر رحمت کی جائے گی) مسند احمد۔ ایسے ہی ایک اور روایت میں ہے کہ: (رحمن رحم کرنے والوں پر ہی رحم فرماتا ہے، تم مہربانی کرو اہل زمین پر تو آسمانوں میں موجود ذات تم پر رحم کرے گی۔) اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔) بخاری۔ اسی طرح سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ: جب زلزلہ آتا تو وہ اپنے گورنروں کے پاس مراسلہ لکھ بھیجتے کہ صدقہ کریں۔
ہمہ قسم کی برائی سے سلامتی اور عافیت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ارباب اقتدار فوری طور پر شریعت سے منحرف لوگوں کو روکیں اور انہیں حق بات پر چلنے کی تلقین کریں، اور ان کے متعلق شریعت الہی کے مطابق فیصلہ کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں، جن پر اللہ رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔ [التوبہ:71]
ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [40] الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
ترجمہ: اور اللہ ایسے لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ یقیناً بڑا طاقتور اور سب پر غالب ہے۔ [40] یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین کا اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکاۃ ادا کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں ۔ اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ [الحج:40-41]
ایسے ہی فرمایا:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
ترجمہ: اور تقوی الہی اپنانے والے کے لیے اللہ تعالی مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو اللہ تعالی پر بھروسا کر لے تو اللہ تعالی ہی اسے کافی ہو جاتا ہے۔[الطلاق: 2-3] اس موضوع پر آیات کافی زیادہ ہیں۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (9/150-152)
واللہ اعلم