جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

آيت: " الزانى لاينك حالا زانيۃ او مشركۃ " كى تفسير

122639

تاریخ اشاعت : 12-12-2009

مشاہدات : 8091

سوال

برائے مہربانى سورۃ النور كى آيت نمبر ايك دو اور تين نمبر آيت كى تفسير بتائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى كے فرمان:

زانى مرد سوائے زانيہ يا مشرك عورت كے اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زناكار عورت بھى بجز زانى يا مشرك مرد كے اور سے نكاح نہيں كرتى اور ايمان والوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے النور ( 3 ).

مفسرين اس كى مراد ميں اختلاف كرتے ہيں، كہ عفيف مرد زانيہ عورت سے اس وقت تك شادى نہيں كر سكتا جب تك وہ عورت توبہ نہ كر لے، اور اسى طرح عفيفہ اور پاكباز عورت بھى كسى زانى مرد سے شادى نہيں كر سكتى جب تك وہ مرد توبہ نہ كر لے، اس ميں دو قول ہيں:

پہلا قول:

يہ آيت حرمت پر دلالت كرتى ہے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ كا قول يہى ہے جيسا كہ ہم مغنى ابن قدامہ ميں پاتے ہيں ديكھيں: ( 7 / 108 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ نے بھى بہت سارے دلائل كے ساتھ اس كى تائيد كى ہے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 15 / 315 ) اور ( 32 / 113 )، اور اغاثۃ اللھفان ( 1 / 65 ).

ہمارى اس ويب سائٹ ميں يہى قول اختيار كيا گيا جو كئى ايك سوالات كے جوابات ميں بيان ہو چكا ہے، اس كا مطالعہ كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 85335 ) اور ( 96460 ) اور ( 104492 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

امام شافعى رحمہ اللہ كا بھى قول اسى طرح ہے، ليكن امام شافعى كہتے ہيں كہ يہ آيت منسوخ ہے، اور انہوں نے زانى مرد يا عورت كا نكاح جائز قرار ديا ہے.

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مفسرين كا اس آيت كے بارہ ميں واضح اختلاف ہے، اور ہمارے ہاں جو يہ ہے ـ اللہ اعلم ـ جو ابن مسيب رحمہ اللہ نے كہا كہ يہ آيت منسوخ ہے، اس كى ناسخ آيت يہ ہے:

اور تم ميں سے جو مرد و عورت بےنكاح كے ہوں ان كا نكاح كر دو، اور اپنے نيك بخت غلام اور لونڈيوں كا بھى النور ( 32 ).

تو يہ مسلمانوں ميں سے بےنكاح مرد و عورت ہيں، جيسا كہ ابن مسيب رحمہ اللہ كا كہنا ہے ـ ان شاء اللہ ـ اور كتاب و سنت ميں اس كے دلائل پائے جاتے ہيں " انتہى

ديكھيں: الام ( 5 / 158 ).

دوسرا قول:

يہ اصلا حرمت پر دلالت كرتى ہے، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے.

حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے يہ خبر ہے كہ زانى مرد صرف زانيہ يا مشركہ عورت سے ہى وطئ كرتا ہے، يعنى اس مرد كى زناكارى كى مراد صرف وہى عورت پورى كرتى ہے جو زانيہ يا مشركہ ہو جو اسے حرام نہ جانتى ہو.

اور اسى طرح " زانيہ عورت بھى زانى مرد كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتى " يعنى زنا اور شرك كا گناہ كرنے والے كے علاوہ كسى اور سے نہيں " جو اس كى حرمت كا اعتقاد نہ ركھتا ہو.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

يہ نكاح كے ساتھ نہيں، بلكہ يہ جماع ہے، اس سے زنا وہى كرتا ہے جو زانى اور مشرك ہے.

اس كى سند صحيح ہے، اور كئى ايك طريق سے مروى ہے.

اور مجاہد، عكرمہ، سعيد بن جبير، اور عروۃ بن زبير، ضحاك، مكحول، مقاتل بن حيان وغيرہ سے بھى اسى طرح مروى ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير القرآن العظيم ( 6 / 9 ).

ان دونوں اقوال كا مناقشہ كرنے ميں بہت باريك بينى چاہيے، اس كى شرح و وضاحت علامہ امين شنقيطى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب اضواء البيان ميں كى ہے يہاں ہم اختصار كے ساتھ انكى كلام نقل كرتے ہيں:

" اس كتاب مبارك ميں جو بيان پائے جاتے ہيں اس كى انواع ميں يہ بھى ہے كہ: بعض علماء اس آيت ميں كوئى ايك قول كہيں، اور اس قول كے صحيح نہ ہونے پر اسى آيت ميں كوئى قرينہ پايا جاتا ہو، اس كى مثال يہى آيت ہے:

اس كى وضاحت كچھ اس طرح ہے كہ:

علماء كرام كا اس آيت ميں نكاح سے مراد ميں اختلاف پايا جاتا ہے.

كچھ لوگ تو كہتے ہيں كہ اس آيت ميں نكاح سے مراد وطئ ہے جو كہ نفس زنا ہے.

اور اہل علم كى ايك جماعت كہتى ہے كہ: اس آيت ميں نكاح سے مراد عقد نكاح ہے.

ان كا كہنا ہے كہ: كسى بھى عفيف شخص كے ليے اپنے سے برعكس كسى زانيہ عورت سے شادى كرنا جائز نہيں، اور يہى قول ـ كہ آيت ميں نكاح سے مراد شادى ہے نا كہ وطئ ـ اس آيت ميں ہى اس قول كے صحيح نہ ہونے پر ايك قرينہ ہے، اور يہ قرينہ يہ ہے كہ آيت ميں مشرك مرد اور مشرك عورت كا ذكر كيا گيا ہے؛ كيونكہ كسى مسلمان زانى شخص كے ليے كسى مشركہ عورت سے شادى كرنا حلال نہيں.

اس ليے كہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم مشرك عورتوں سے اس وقت تك نكاح مت كرو جب تك وہ ايمان نہ لے آئيں .

اور فرمان بارى تعالى ہے:

نہ تو يہ عورتيں ان مردوں كے ليے حلال ہيں، اور نہ ہى يہ مرد ان عورتوں كے ليے حلال ہيں .

اور فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم كافروں كى عصمت كو مت روكو .

اور اسى طرح مسلمان زانى عورت كے ليے مشرك مرد سے نكاح كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم مشرك مردوں سے اس وقت تك نكاح مت كرو حتى كہ وہ ايمان لے آئيں .

چنانچہ مشرك مرد اور مشركہ عورت سے نكاح كسى بھى حال ميں حلال نہيں، اور يہ ايك ايسا قرينہ ہے جو اس پر دلالت كرتا ہے كہ آيت ميں نكاح سے مراد وطئ جو كہ زنا ہے نہ كہ عقد نكاح؛ كيونكہ مشرك اور مشركہ كے ذكر كے ساتھ عقد نكاح كى كوئى مناسبت نہيں.

آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ عفت و عصمت والے شخص كے زانى عورت كے نكاح ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، ايك گروہ جس ميں آئمہ ثلاثۃ شامل ہيں كہتا ہے كہ كراہت تنزيہى كے ساتھ زانى عورت كے ساتھ نكاح جائز ہے، امام مالك اور ان كے اصحاب اور ان كو موافقت كرنے والوں كے ہاں كراہت تنزيہى كے ساتھ ان كے دلائل درج ذيل ہيں:

اللہ تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور تمہارے ليے اس كے علاوہ حلال كى گئى ہيں .

يہ آيت اپنے عموم كے اعتبار سے زانى اور عفيف دونوں كو شامل ہے.

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور تم اپنے ميں سے بےنكاح مرد و عورت كا نكاح كر دو .

يہ آيت بھى زانى اور عفيف عورت دونوں كو شامل ہے، اس ميں ان كے دلائل يہ ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:

ميرى عورت كسى چھونے والے كا ہاتھ واپس نہيں كرتى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے عليحدہ كر دو تو وہ شخص كہنے لگا: مجھے خدشہ ہے كہ ميرا دل اس كا پيچھا كريگا ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر اس سے فائدہ اٹھاؤ "

بلوغ المرام ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حديث كے يہى الفاظ ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:

" اسے ابوداود اور ترمذى اور بزار نے روايت كيا ہے، اور اس كے رجال ثقات ہيں، اور دوسرے طريق سے نسائى نے بھى ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے:

" تم اسے طلاق دے دو "

تو اس شخص نے عرض كيا: ميں اس كے بغير صبر نہيں كر سكتا ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر اسے ركھو " اھـ ماخوذ از بلوغ المرام.

پھر يہ بھى معلوم ہو كہ جنہوں نے زانى مرد اور زانى عورت كى شادى كو جائز قرار ديا ہے انہوں نے اس آيت كا:

زانى مرد زانى عورت يا مشركہ عورت كے علاوہ كسى سے نكاح نہيں كرتا.

كا جواب دو طرح سے ديا ہے:

پہلا جواب:

آيت ميں نكاح سے مراد وطئ ہے جو بعينہ زنا ہے، ان كا كہنا ہے كہ اس آيت سے زنا كى قباحت اور اس سے شدت نفرت بيان كرنا مراد ہے؛ كيونكہ زانى شخص كے زنا ميں زنا پر وہى عورت تيار ہوتى ہے جو شرك كى وجہ سے خسيس ہو اور اتنى گرى ہوئى ہو كہ وہ اسے حرام نہ سمجھے يا پھر زانيہ اور فاجرہ قسم كى عورت.

اس قول كى بنا پر اللہ تعالى كے فرمان:

اور يہ مومنوں پر حرام كيا گيا ہے.

كا اشارہ وطئ كى طرف ہے جو كہ زنا ہے، اللہ تعالى ہميں اور ہمارے مسلمان بھائيوں كو اس سے محفوظ ركھے، اس بنا پر مشرك اور مشركہ كے ذكر پر اس قول كے مطابق كوئى اشكال نہيں رہتا.

دوسرا جواب:

ان كا كہنا ہے كہ: اس آيت ميں نكاح سے مراد شادى كرنا ہے، ليكن يہ آيت:

زانى مرد صرف زانى عورت سے ہى نكاح كرتا ہے.

اس آيت كے ساتھ منسوخ ہے:

اور تم اپنے ميں سے غير شادى شدہ مرد و عورت كا نكاح كر دو .

اس كو منسوخ كہنے والوں ميں سعيب بن مسيب اور امام شافعى رحمہما اللہ شامل ہيں.

اور اس آيت كى تفسير ميں قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابن عباس اور ان كے اصحاب سے مروى ہے كہ اس آيت ميں نكاح سے مراد وطئ ہے.

اور ابن عباس صحابہ كرام ميں سب سے زيادہ تفسير كا علم ركھنے والے ہيں، اور عربى زبان كے علم ميں بھى ان كے متعلق كوئى شك نہيں، چنانچہ اس آيت ميں ان كا قول كہ يہاں نكاح سے مراد جماع ہے عقد نكاح نہيں يہ بھى اس كى دليل ہے كہ يہ بھى فصيح عربى زبان ميں جارى تھا.

چنانچہ يہ دعوى كرنا كہ يہ تفسير عربى ميں صحيح نہيں اور قبيح ہے كو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول رد كرتا ہے.

اور اہل علم ميں سے كچھ دوسرے لوگ كہتے ہيں كہ زانى مرد كا عفيف عورت سے اور زانى عورت كا عفيف مرد سے شادى كرنا جائز نہيں، امام احمد كا مسلك يہى ہے، اور حسن اور قتادہ سے بھى مروى ہے، اس قول كے مالك علماء نے آيات اور احاديث سے استدلال كيا ہے:

اس آيت سے استدلال كرتے ہيں جس كے متعلق ہمارى بحث چل رہى ہے كہ فرمان بارى تعالى ہے:

زانى مرد سوائے زانيہ يا مشرك عورت كے اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زناكار عورت بھى بجز زانى يا مشرك مرد كے اور سے نكاح نہيں كرتى اور ايمان والوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے النور ( 3 ).

ان كا كہنا ہے كہ: اس آيت ميں نكاح سے مراد شادى ہے، اور اس كى حرمت ميں اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور ايمان والوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے النور ( 3 ).

ان كا كہنا ہے: ( ذلك ) يہ زانى شخص كى غير زانى يا مشرك كى طرف راجع ہے، اور زانى مرد كا عفيف عورت اور عفيف مرد كا زانى عورت سے شادى كى حرمت ميں قرآنى نص ہے.

اور انہوں نے اس آيت سے بھى استدلال كيا ہے:

اور مومن پاكباز عورتيں، اور تم سے پہلے اہل كتاب كى پاكباز عورتيں بھى جب تم انہيں ان كے مہر دے دو عفت اختيار كرتے ہوئے، نہ كہ بدكارى كرتے ہوئے اور خفيہ طور پر دوستى لگاتے ہوئے .

ان كا كہنا ہے كہ فرمان بارى تعالى:

عفت و عصمت اختيار كرتے ہوئے نہ كہ بدكارى كرتے ہوئے.

يعنى عفت و عصمت كے ساتھ نہ كہ زانى بن كر، اور اس آيت كا مفہوم مخالف يہ ہوا كہ بدكار جو كہ زانى شخص ہے اس كا عفيف مومن عورت كے ساتھ نكاح جائز نہيں، اور نہ ہى اہل كتاب كى عفيف اور پاكباز عورت سے.

اور فرمان بارى تعالى ہے:

تم ان كے مالكوں كى اجازت سے ان سے نكاح كر لو، اور قاعدے كے مطابق ان كے مہر ان كو دو، وہ پاكدامن ہوں نہ كہ علانيہ بدكارى كرنے والياں، نہ خفيہ آشنائى كرنے والياں .

تو يہاں فرمان بارى تعالى:

وہ پاكدامن ہوں نہ كہ علانيہ بدكارى كرنے والياں .

يعنى عفت و عصمت كى مالك ہوں زانى نہ ہوں، اور اس آيت كا مفہوم مخالف يہ سمجھ ميں آيا كہ اگر وہ علانيہ بدكارى كرنے والياں ہيں اور عفت و عصمت كى مالك نہيں تو ان سے شادى كرنا جائز نہيں.

اس قول كے مالك كے دلائل ميں يہ بھى شامل ہے كہ: اس آيت:

" زانى مرد زانى يا مشركہ عورت كے علاوہ كسى سے نكاح نہ كرے"

كے سبب نزول ميں جتى بھى احاديث وارد ہيں وہ سب عقد نكاح كے بارہ ميں ہيں اور ايك بھى وطئ اور جماع كے متعلق نہيں، اور اصول فقہ ميں يہ مقرر ہے كہ سبب نزول كى صورت قطعى دخول ہے، اور سنت ميں اس آيت كے متعلق كہے گئے قول كى تائيد بھى ملتى ہے، كہ اس آيت ميں نكاح سے مراد شادى ہے، اور زانى مرد اپنے جيسى زانيہ عورت سے ہى شادى كريگا.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" زانى جسے كوڑوں كى حد لگائى گئى ہو وہ اپنے جيسى كے علاوہ كسى اور سے شادى نہيں كرتا "

ابن حجر رحمہ اللہ بلوغ المرام ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كے متعلق كہتے ہيں:

اسے امام احمد اور ابو داود نے روايت كيا ہے اور اس كے رجال ثقات ہيں.

اس كے سبب نزول ميں وارد شدہ احايث:

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ مسلمانوں ميں سے ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ام مہزول نامى عورت كے ساتھ شادى كرنے كى اجازت طلب كى جو اس كے ساتھ بدكارى كيا كرتى تھى، اور اس سے شرط ركھتى تھى كہ وہ اس كا خرچ برداشت كرے گى، تو اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت مانگى يا آپ كے سامنے اس معاملہ كو ذكر كيا گيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے سامنے يہ آيت پڑھى:

" زانى عورت زانى يا مشرك مرد كے علاوہ كسى اور سے شادى نہيں كرتى "

اسے احمد نے روايت كيا ہے.

اور عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ كى روايت بھى اسى ميں شامل ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

مرثد بن ابو مرثد غنوى مكہ سے قيدى اٹھا كر لايا كرتے تھے، اور مكہ ميں عناق نامى ايك بدكار عورت تھى جو ان كى دوست تھى، راوى بيان كرتے ہيں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميں عناق سے شادى كر لوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش ہو گئے اور يہ آيت نازل ہوئى:

" زانى عورت سے زانى يا مشرك مرد كے علاوہ كوئى اور نكاح نہيں كرتا "

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے بلايا اور ميرے سامنے يہ آيت پڑھى، اور فرمايا: تم اس سے نكاح مت كرو "

اسے ابو داود اور نسائى اور ترمذى نے روايت كيا اور ترمذى نے اسے حسن غريب قرار ديا اور كہا ہے كہ ہم اسے اس طريق كے علاوہ نہيں جانتے.

ان كا كہنا ہے كہ يہ اور اس طرح كى احاديث بہت ہيں جو درج اس آيت:

" زانى مرد زانى يا مشرك عورت كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتا "

ميں نكاح سے مراد شادى پر دلالت كرتى ہيں نہ كہ وطئ اور جماع پر، اور نزول كى صورت قطعى الدخول ہے؛ جيسا كہ فيصلہ شدہ بات ہے.

اور زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" زانيہ كے زنا كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ النور ميں اس كے حرام ہونے كى صراحت كى ہے، اور بتايا ہے كہ جو بھى زانيہ عورت سے نكاح كرتا يا تو وہ زانى ہے يا پھر مشرك كيونكہ يا تو وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كا التزام كريگا، اور وہ اپنے اوپر اس كے وجوب كا اعتقاد ركھتا ہے يا نہيں، اگر وہ اس كا التزام نہيں كرتا اور اعتقاد نہيں ركھتا تو وہ مشرك ہے، اور اگر التزام كرتا اور اس كے وجوب كا اعتقاد ركھتا ہے، اور اس كى مخالفت كرے تو وہ زانى ہے، پھر اس كے حرام ہونے كى صراحت كرتے ہوئے فرمايا:

" اور يہ مومنوں پر حرام كيا گيا ہے "

اور يہ مخفى نہيں كہ اس آيت كو درج ذيل آيت سے منسوخ ہونے كا دعوى كمزور ترين قول ہے

فرمان بارى تعالى ہے:

" اور تم اپنے غير شادى شدہ مرد و عورت كا نكاح كر دو "

اور اس سے بھى كمزور تو يہ ہے كہ نكاح كو زنا پر محمول كيا جائے.

اس طرح تو آيت كا معنى يہ ہو جائيگا كہ:

" زانى تو زانيہ يا مشركہ عورت كے علاوہ كسى اور سے زنا نہيں كرتا، اور زانيہ عورت سے زانى يا مشرك مرد ہى زنا كرتا ہے اس كے علاوہ كوئى اور نہيں، اور كلام اللہ اس طرح سے محفوظ اور مبرا ہے، اور اسى طرح آيت كو بدكار مشركہ عورت پر محمول كرنا بھى آيت كے الفاظ اور سياق سے انتہائى دور ہے، يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو آزاد عورتوں اور غلام عورتوں كا نكاح عفت و عصمت كى شرط سے مباح كرتے ہوئے فرمايا:

تم ان كے مالكوں كى اجازت سے ان سے نكاح كر لو، اور قاعدے كے مطابق ان كے مہر ان كو دو، وہ پاكدامن ہوں نہ كہ علانيہ بدكارى كرنے والياں، نہ خفيہ آشنائى كرنے والياں .

چنانچہ اس كا نكاح اس حالت ميں مباح كيا ہے اس كے علاوہ نہيں، اور يہ مفہوم دلالت ميں سے نہيں، كيونكہ اصل ميں حرمت ہے، اس ليے اس كى اباحت كو اس پر ہى مقتصر كيا جائيگا جو شريعت ميں وارد ہے، اور اس كے علاوہ اصل پر حرام ہى ہے، ابن قيم رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.

ہم نے دو يہ دلائل ذكر كيے ہيں وہى دلائل ہيں جو زانى مرد كے عفيف عورت اور عفيف مرد كے زانيہ عورت سے شادى كى ممانعت كے دلائل ہيں، اور جب آپ كو زانى مرد اور عورت كے نكاح كے مسئلہ ميں اہل علم كے اقوال اور ان كے دلائل كا علم ہو گيا تو اب ہم ان كے دلائل كا مناقشہ كرتے ہيں:

ابن قيم رحمہ اللہ كا قول كہ:

آيت ميں زنا كو وطئ پر محمول كرنا، اس جيسے سے كتاب اللہ كو محفوظ ركھنا چاہيے، اس كا رد ابن عباس كے قول ميں ہے كہ ابن عباس عربى زبان اور قرآن مجيد كے معانى كو سب سے زيادہ جاننے والے ہيں، ان سے صحيح ثابت ہے كہ انہوں نے آيت ميں زنا كو وطئ پر محمول كيا ہے، اگر ايسا ہے تو پھر يہ ضرورى تھا كہ اس طرح كى كلام سے كتاب اللہ كو محفوظ ركھا جاتا، يہ بات صحيح ہوتى تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اسے اس سے ضرور محفوظ ركھتے، اور يہ قول نہ كہتے، اور ان پر مخفى نہيں ہو سكتا كہ اس جيسى چيز سے محفوظ ركھنا چاہيے.

اور ابن عربى ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى اس آيت ميں زنا كى وطئ كے ساتھ تفسير كرنے كے بارہ ميں كہتے ہيں كہ يہ معنى صحيح ہے. انتہى بواسطہ قرطبى.

اور سعيد بن مسيب اور امام شافعى كا قول كہ: آيت:

زانى مرد زانيہ يا مشركہ عورت سے شادى نہيں كرتا .

اس آيت:

اور اپنے ميں سے غير شادى شدہ مرد اور عورت كا نكاح كر دو .

سے منسوخ ہے، يہ مطلق آيت " زانى مرد زانيہ يا مشركہ " سے عام ہے، لہذا مذكور آئمہ ثلاثہ كے مقرر كردہ اصول ميں اسے منسوخ كا قول كہنا ممنوع ہے، بلكہ ابو حنيفہ كے مقرر كردہ اصول ميں جائز ہے، جيسا كہ ہم اس كى وضاحت سورۃ الانعام ميں كر چكے ہيں، اور سعيد اور امام شافعى كے منسوخيت والے قول كا جواب يہ ہے كہ انہوں نے يہ آيت ميں موجود قرينہ سے سمجھا ہے، وہ يہ كہ:

آيت ميں آزاد مرد و عورت كو اصلاح سے مقيد نہيں كيا گيا، بلكہ غلام مرد اور عورت ميں اصلاح كى قيد ہے، اسى ليے آيت كے بعد آگے فرمايا:

اور تمہارے غلام اور لونڈيوں ميں سے نيك و صالح .

اس كو مقيد كرنے والے كہتے ہيں اللہ انہيں معاف كرے:

يہ آيت كريمہ تحقيق كے اعتبار سے سب سے مشكل آيات ميں شامل ہوتى ہے؛ كيونكہ اس ميں نكاح كو شادى پر محمول كرنا مشرك مرد اور مشرك عورت كے ذكر سے مناسبت نہيں ركھتا، اور نكاح كو وطئ پر محمول كرنا اس آيت كے متعلق وارد شدہ احاديث كے مناسب نہيں جوآيت ميں نكاح سے مراد شادى پر متعين كرنے پر دلالت كرتى ہيں.

اس آيت ميں اشكال سے نكلنے كے ليے مجھے كوئى واضح مخرج نہيں ملتا، ليكن كچھ تعسف كے ساتھ، وہ يہ كہ اصوليوں كے ہاں سب سے صحيح قول ـ جيسا كہ ابو العباس ابن تيميہ نے اپنے رسالہ " فى علوم القرآن " ميں تحرير كيا ہے، اور مذاہب اربعہ كے جليل القدر علماء كى طرف منسوب كيا ہے ـ وہ يہ قول ہے كہ مشترك كو دو يا اس سے زائد معانى پر محمول كرنا جائز ہے، اس ليے آپ كے ليے يہ كہنا جائز ہے:

چوروں نے كل رات زيد كى آنكھ پر زيادتى كى، اور آپ كى اس سے مراد يہ ہو كہ چوروں نے ديكھنے اور جارى آنكھ زخمى كر دى، اور اس كى آنكھ ہى چورى كر لى جو اس كا سونا اور چاندى تھى.

اور جب آپ كو يہ علم ہو گيا تو آپ يہ جان ليں كہ نكاح كا لفظ وطئ اور شادى دونوں معنوں ميں مشترك ہے، اس كے خلاف جس نے ان دونوں ميں سے كسى ايك كى حقيقت اور دوسرے كے مجاز كا خيال كيا، جيسا كہ ہم پہلے اشارہ كر چكے ہيں.

اور مشترك كو دو معنوں ميں سے ايك پر محمول كرنا جائز ہوا تو آيت ميں نكاح كو وطئ اور شادى دونوں پر محمول كيا جا سكتا ہے، اور مشرك اور مشركہ كا ذكر عقد كى بجائے نكاح كى تفسير ميں ہوگا، اور يہ اس تعسف كى ايك نوع ہے جس كى طرف ہم اشارہ كر چكے ہيں باقى علم تو اللہ كے پاس ہے.

اور اكثر اہل علم زانيہ عورت سے شادى كى اباحت پر ہيں اور اس كى ممانعت ميں كم، اور آپ كو سب كے دلائل معلوم ہو چكے ہيں.

يہ بھى جان ليں كہ جنہوں نے عفيف كا زانيہ عورت سے شادى جائز قرار دى ہے ان كے قول سے يہ لازم نہيں آتا كہ زانيہ عورت كا خاوند ديوث ہو؛ كيونكہ اس نے اس زانيہ عورت سے اس كى حفاظت كرنے اور اسے ايسے كام كے ارتكاب سے روكنے كے ليے شادى كى تا كہ اسے اس عمل سے روك سكے جو كرنا جائز نہيں، كہ وہ اسكى ہميشہ نگرانى كريگا.

اور جب گھر سے باہر جائے تو گھر كے دروازے مقفل كر كے جائے، اپنے بعد اس كى حفاظت كرنے كى وصيت كى، يہ اس شدت غيرت اور اس كو شك والى چيز سے بچانے اور اس كو شك سے بچانے كے ليے كيا، اور اگر خاوند كا اپنى بيوى كى خفاظت كے باوجود بيوى سے كوئى ايسا عمل سرزد ہو گيا جس كا خاوند كو علم نہيں تو خاوند پر كچھ نہيں، اور اس طرح وہ ديوث نہيں ہو گا جيسا كہ معلوم ہے.

اس مسئلہ ميں ہمارے ليے يہى ظاہر ہے كہ مسلمان شخص كو عفيف عورت سے ہى شادى كرنى چاہيے، اس كے دلائل وہ آيات ہيں جو ہم ذكر كر چكے ہيں، اور يہ حديث بھى اس كى تائيد كرتى ہے كہ:

" تيرے ہاتھ خاك ميں مليں تو دين والى كو اختيار كر "

باقى علم تو اللہ كے پاس ہے " شيخ شنقيطى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.

ديكھيں: اضواء البيان ( 5 / 417 - 428 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب