الحمد للہ.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا حاملہ عورت كو طلاق واقع ہو جاتى ہے يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
يہ مسئلہ عام لوگوں ميں چل رہا ہے، كچھ عوام كا خيال ہے كہ حاملہ عورت كو طلاق واقع نہيں ہوتى، مجھے علم نہيں كہ ان كا يہ خيال اور گمان كہاں سے آيا ہے، علماء كرام كى كلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ہے.
بلكہ سب اہل علم اس پر متفق ہيں كہ حاملہ عورت كو دى گئى طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور اس پر اہل علم كا اجماع ہے جس ميں كوئى اختلاف نہيں.
طلاق دينے كا سنت طريقہ يہ ہے كہ دو حالتوں ميں طلاق دى جائے:
پہلى حالت:
بيوى حاملہ ہو، اسے طلاق دى جائے تو يہ سنت طريقہ ہو گا بدعى نہيں.
دوسرى حالت:
عورت پاك ہو اور اس سے خاوند نے جماع نہ كيا ہو، يعنى عورت اپنے حيض يا نفاس سے پاك ہوئى ہو اور خاوند نے اس سے جماع نہ كيا ہو تو اسے طلاق دے تو اس حالت ميں دى گئى طلاق سنت طريقہ كے مطابق ہوگى نہ كہ بدعى طريقہ پر.
ديكھيں: فتاوى الطلاق للشيخ ابن باز ( 1 / 45 - 46 ).
جب اس نے عدت ميں ہى رجوع كر ليا ہے تو وہ اس كى بيوى بن جائيگى، كيونكہ حاملہ عورت كى عدت وضح حمل ہے اور اس كا خاوند وضع حمل سے قبل بيوى سے رجوع كر سكتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور حمل واليوں كى عدت يہ ہے كہ وہ اپنا حمل وضع كر ليں الطلاق ( 4 ).
حاملہ عورت كى عدت يہى ہے چاہے وہ طلاق يافتہ ہو يا اس كا خاوند فوت ہو جائے، اور خاوند كو چاہيے كہ وہ اس طلاق كو شمار كرے .
واللہ اعلم .