الحمد للہ.
شیخ حافظ حکمی نے اپنی نظم سلم الوصول میں کہا ہے کہ:
علم اور یقین اور قبول اور انقیاد کو جان لے جو میں کہہ رہا ہوں،
صدق اور اخلاص اور محبت اللہ تجھے اس کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے۔
پہلی شرط: (علم) اس سے مراد نفی اور اثبات جو کہ جہالت کے منافی ہے،
فرمان باری تعالی ہے:
"تو آپ جان لیں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں"
اور فرمان ربانی ہے:
"مگر وہ جو حق کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو"
یعنی لا الہ الا اللہ کا اقرار کریں اور اپنے دلوں کے ساتھ اسکا معنی بھی جانتے ہوں جو انکی زبان کہہ رہی ہے۔
صحیح بخاری میں عثمان رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اس حالت میں مرا کہ اسے لا الہ الا اللہ کا علم ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا)۔
دوسری شرط: (یقین) یہ اس کے کہنے والے کو جس پر یہ کلمہ دلالت کررہا ہے اس پر پختہ یقین ہونا چاہئے کیونکہ ایمان میں ایسا علم جو کہ ظنی ہو کافی نہیں بلکہ ایسا ایمان ہونا چاہئے جو کہ یقینی علم پر مبنی ہو تو اگر اس میں شک یعنی ظن داخل ہوگیا تو پھر اسکا کیا حال ہوگا؟
فرمان باری تعالی ہے:
"مومن تو وہ ہیں جو اللہ تعالی اور اسکے رسول پر (پختہ) ایمان لائیں پھر شک وشبہ نہ کریں اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہیں تو یہی پکے اور سچے مومن ہیں"
تو اس آیت میں اللہ تعالی اور اسکے رسول پر صدق ایمان کی شرط یہ لگائی کہ وہ شک وشبہ کی گنجائش نہ رکھیں، جسے شک وشبہ ہوتا ہے وہ منافق ہے۔
صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ تعالی کا رسول ہوں، تو اگر وہ بندہ اس میں بغیر شک کیے اپنے رب سے جاملے تو وہ جنت میں داخل ہوگا)۔
اور دوسری روایت میں ہے کہ: (ان دونوں میں شک نہ کرنے والا اللہ تعالی سے جاملے تو اس سے جنت چھپائی نہیں جائے گی)۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلی نے انہیں جوتے دیکر بھیجا اور کہا کہ جو بھی اس باغ کے باہر ملے اور وہ لا الہ الا اللہ کی گواہی اپنے دل کے یقین کے ساتھ دیتا ہو اسے جنت کی خوشخبری دےدو) حدیث
تو جنت میں داخل ہونے کی شرط یہ لگائی کہ جو اسے اپنے دل کے یقین کے ساتھ پڑھتا ہو اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ رکھتا ہو، تو جب شرط نہ پائی جائے تو پھر مشروط بھی نہیں ہوتا۔
تیسری شرط: (قبول) یہ کلمہ جس چیز کا تقاضا کرتا ہے اسے دل اور زبان کے ساتھ قبول کرنا، اللہ عزوجل نے سابقہ امتوں کے قصے بیان کرتے ہوئے ان لوگوں کی نجات کا بیان کیا جنہوں نے اسے قبول اور جنہوں نے اسے رد اور اسکا انکار کیا انکی سزا کا بھی بیان کیا ہے فرمان باری تعالی ہے:
"ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا اور انکے ہمراہیوں کو بھی اور ان کو بھی جن جن کی یہ اللہ کے علاوہ پرستش کرتے تھے ان سب کو جمع کر کے انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو اور انہیں ٹھہرا لو (اس لئے کہ) ان سے سوال کئے جانے والے ہیں) اللہ تعالی کے اس فرمان تک "یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں تو یہ سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی بات پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟"۔
تو اللہ تعالی نے انکے عذاب کی علت اور اسکا سبب یہ بیان کیا کہ وہ لاالہ الا اللہ سے تکبر کرتے اور اسے جو یہ کلمہ لے کر آیا جھٹلاتے اور اس چیز کی نفی نہیں کرتے تھے جس کی اس کلمے نے نفی کی اور نہ ہی اسکا اثبات کرتے جس کی یہ کلمہ اثبات کرتا ہے بلکہ انہوں نے اس سے انکار اور تکبر وسرکشی کرتے ہوئے یہ کہا کہ:
"کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود بنادیا واقعی یہ بہت عجیب بات ہے، ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے اور ڈٹے رہو یقینا اس بات میں کوئی غرض ہے، ہم نے تو یہ بات پھچلے دین میں بھی نہیں سنی کچھ نہیں تو یہ صرف گھڑی ہوئی بات ہے"۔
تو اللہ تعالی نے انہیں جھٹلاتے اور ان کا رد کرتے ہوئے اپنے نبی کی زبان سے یہ فرمایا:
"(نہیں نہیں) بلکہ (نبی) تو حق (سچا دین) لائے ہیں اور سب رسولوں کو سچا مانتے ہیں"
پھر اسکے بعد ان کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا جن لوگوں نے اس کلمے کو قبول کیا:
"مگر اللہ تعالی کے خالص اور برگزیدہ بندے انہیں کے لئے مقرر کردہ رزق ہے ہر طرح کے میوے اور وہ باعزت ہونگے نعمتوں والی جنتوں میں"۔
اور صحیح بخاری میں ابو موسی رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس ہدایت اور علم کی مثال جو کہ اللہ تعالی نے مجھے دیکر مبعوث کیا ہے مثال اس موسلا دھار بارش کی ہے جو کہ ایسی زمین پر ہوتی ہے جو کہ صاف ہو اور پانی کو قبول کرنے کے بعد بہت زیادہ گھاس اور سبزہ اگائے، اور دوسری زمین کا ٹکڑا ایسا ہے کہ جہاں بارش ہو تو وہ نہ تو پانی ہی روکتا ہے اور نہ ہی گھاس اور سبزا اگاتا ہے، تو یہی مثال اس کی ہے جو کہ اللہ کے دین کی سمجھ رکھتا ہے تو اسے وہ چیز نفع دیتی ہے جسے دیکر اللہ تعالی نے مجھے بھیجا ہے اسے وہ خود بھی سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے اور وہ جو اس کی طرف سراٹھا کر دیکھتا اور دھیان بھی نہیں دیتا اور نہ ہی اللہ تعالی کی اس ہدایت کو جسے میں دیکر مبعوث کیا گیا ہوں قبول کرتا ہے۔)
چوتھی شرط: (انقیاد) مطیع ہونا: جو اس کے منافی ہونے پر دلالت کرے اس کا ترک کرنا ضروری ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
"اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تابع کردے اور پھر وہ ہو احسان کرنے والا یقینا اس نے مضبوط کنڈے کو تھام لیا اور تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کی طرف ہے"۔
یعنی جس نے لاالہ الا اللہ کے ساتھ کنڈے کو پکڑلیا۔ اور احسان کرنے والا: اس کا معنی یہ ہے کہ: وہ اللہ کا مطیع اور اسکے تابع ہو اور پھر موحد بھی ہو۔
اور جو اپنے آپ کو اللہ تعالی کا مطیع اور تابع نہ کرے اس نے مضبوط کنڈے کو ہاتھ نہیں ڈالا اور اللہ تعالی کے اس قول کا معنی بھی یہی ہے:
"آپ کافروں کے کفر سے رنجیدہ نہ ہوں آخر ان سب نے ہماری طرف ہی لوٹنا ہے پھر ہم انکو بتائیں گے جو انہوں نے کیا ہے"۔
صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (آپ میں کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہشات کو اس کے تابع نہ کردے جو میں لایا ہوں)۔
تو یہی مکمل اور انتہائی اتباع اور پیروی ہے۔
پانچویں شرط: (صدق) جو کہ کذب اور جھوٹ کے منافی ہے وہ اس طرح کہ اسے یہ کلمہ صدق دل کے ساتھ کہنا چاہیے اور اسکا دل اسکی زبان سے جو نکل رہا ہے اس میں اسکی پیروی کرے۔ فرمان باری تعالی ہے:
"الم، کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ان کے اس کہنے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہی چھوڑ دینگے ان سے پہلے لوگوں کو بھی ہم نے آزمایا یقینا اللہ تعالی ان کو بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی جو جھوٹے ہیں"
اور منافقوں اور جھوٹوں کے متعلق ارشاد فرمایا:
"اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں، وہ اللہ تعالی اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہيں مگر سمجھتے نہیں، ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالی نے ان کی بیماری کو مزید بڑھادیا اور انکے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے"۔
بخاری اور مسلم میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو بھی صدق دل سے لاالہ الا اللہ پڑھے اور اسکی گواہی دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں تو اللہ تعالی اس پر آگ کو حرام کردیتے ہیں)-
چھٹی شرط: (اخلاص) اخلاص یہ ہے کہ اپنے تمام اعمال کو شرک کی آلائشوں سے پاک صاف رکھا جائے فرمان باری تعالی ہے:
"خبردار! اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے"
اور فرمان ربانی ہے:
"کہہ دیجئے! کہ میں تو خالص صرف اپنے رب ہی کی عبادت کرتا ہوں"۔
صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگوں میں سے میری شفارش کا وہ شخص مستحق اور سعادت مند ہوگا جس نے لاالہ الا اللہ صدق دل اور جان سے پڑھا)
ساتویں شرط: (محبت) اس کلمہ اور جو اس کے تقاضے اور جن چیزوں پر یہ دلالت کرتا ہے انکے ساتھ محبت ہونا چاہئے اور اسی طرح اس پر اور اس کی شروط پر عمل کرنے والوں سے محبت اور اسکے نواقض سے بغض ہونا چاہئے فرمان باری تعالی ہے:
"اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالی کے شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ تعالی سے ہونی چاہئے اور ایمان والے اللہ تعالی کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں"۔
تو اللہ تعالی نے یہ بیان کیا ہے کہ مومن لوگوں کی محبت اللہ تعالی سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور اسکا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اسکی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا جس طرح کہ ان مشرکوں نے محبت کا دعوی کیا جو کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر ان سے بھی اللہ تعالی جیسی محبت کرتے ہیں۔
صحیح بخاری اور مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے اس وقت تک کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ میرے ساتھ اپنے بیٹے اور باپ اور سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ رکھے۔
واللہ تعالی اعلم۔
اللہ تعالی ہی کے پاس زیادہ علم ہے۔