الحمد للہ.
ميں نے اپنے شيخ اور استاد عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے سودى بنك سے ريٹائرمنٹ پر ملنے والى رقم كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے مجھے جواب ديا:
اس كے ليے اس مدت كے مقابلہ ميں لينا جائز ہے جس ميں اسے حرمت كا علم نہيں تھا اور اس نے سودى بنك ميں ملازمت كى، اور حرمت كا علم ہونے كے بعد والى مدت كا معاوضہ لينا جائز نہيں.
مثلا: فرض كريں كہ اس نے تيس برس بنك ميں ملازمت كى اور اسے بيس برس تك حرمت كا علم نہ ہوا، پھر اسے حكم كا علم ہوا اور وہ دس برس اور ملازمت كرتا رہا، تو اس كے ليے بيس برس كى رقم لينى جائز ہے، اور آخرى دس برس كى نہ لے.
اور اولاد كے بارہ ميں گزارش ہے كہ: اگرچہ ان كے والد كى كمائى حرام ہے ليكن ان كے ليے اپنے والد كے مال سے ضرورت كے مطابق رقم لينى حلال ہے، كيونكہ ان كا نان و نفقہ والد پر واجب ہے، اور حرام كمائى كا گناہ والد كے ذمہ ہے، ليكن وہ اسے نصيحت كريں اور رقم لينے ميں فراخ دلى سے كام نہ ليں.
واللہ اعلم .