سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

خاوند اور بيوى كے درميان شديد اختلافات ہوں تو كيا طلاق دينى چاہيے ؟

سوال

ميں تعليم يافتہ شخص ہوں اور ميرى بيوى بچے بھى ہيں ليكن بيوى كے ساتھ ميرے ہميشہ ہى اختلافات رہتے ہيں، ميں نے بارہا اس كے ساتھ مشكل كو حل كرنے كى كوشش كى ہے ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، نہ تو وہ طلاق لينے پر راضى ہے اور نہ ہى مجھے جنسى طور پر خوش كرتى ہے، اور ہمارے معاشرے ميں دوسرى شادى كرنے كى اجازت نہيں، يا پھر لوگ شادى شدہ شخص سے اپنى بيٹى نہيں بياہتے، ميں خوفزدہ ہوں كہ اگر يہى حالت رہى تو ممنوع اور حرام كا ارتكاب كر بيٹھوں گا برائے مہربانى ميرى راہنمائى فرمائيں، اور آپ سے نصيحت كى اميد ركھتا ہوں، اور ميرى اس مشكل كا كوئى بتائيں اور اس كى بہتر حل كيا ہو سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

لوگوں كے گھر مشكلات سے خالى نہيں، بعض گھروں ميں تھوڑى اور كم مشكلات ہيں، اور بعض ميں زيادہ اور مشكل قسم پريشانياں، اور جو كوئى بھى اپنى مشكلات كو حل كرنا چاہتا ہے، يا كسى دوسرے كى مشكلات كو حل كرنے كى كوشش كرتا ہے تو اسے ان مشكلات كے اسباب كا علم ضرور ہونا چاہيے جو اس اختلاف اور جھگڑے اور آپس ميں نفرت كا باعث بنے ہيں، چايں وہ خاوند اور بيوى كے مابين ہوں، يا دو دوستوں كے درميان، يا پھر باپ اور بيٹے ميں عمومى طور پر نزاع كے اطراف كا علم ہونا چاہيے.

اور ہميں تو آپ اور آپ كى بيوى كے مابين اختلاف كے اسباب كا ہى علم نہيں، اس ليے ہمارى جانب سے جو راہنمائى ہو گى وہ عمومى طور پر ہے جو آپ كے ليے بھى اور آپ كے علاوہ دوسروں كے ليے بھى ہے.

سوال كرنے والے بھائى كو چاہيے كہ وہ اپنے اور اپنى بيوى كے مابين اختلاف كا سبب معلوم كرے اور اسے تلاش كرے ہو سكتا ہے آپ ہى اس ميں بنيادى اور بڑا سبب ہوں جو آپ كى طبيعت ميں شامل ہو جس كو تبديل كرنا ہى آپ كى استطاعت ميں نہ ہو، يا پھر آپ كا اپنى بيوى كے ساتھ معاملات ميں غلط طريقہ ہو، يا آپ اپنى بيوى اور بچوں كا صحيح طور پر اہتمام اور خيال نہ كرتے ہوں، يا اس كے علاوہ اور بھى سبب ہو سكتا ہے جن كا شمار نہيں، اس ليے آپ اپنى غلطيوں كى اصلاح كريں.

اور اگر اختلاف كے يہ اسباب آپ كى جانب سے ہوں تو آپ ان اسباب كو ختم كر كے يہ اختلافات كر سكتے ہيں، اور آپ كے ليے يہ مخفى نہيں كہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت اور اس كا بہتر اہتمام اور بيوى كے كاموں كى تعريف كرنا، اور اولاد كى اچھى ديكھ بھال كرنا، اور اس كے ساتھ ساتھ گھريلو ضروريات كى اشياء كا انتظام اور پورا كرنا يہ سب كچھ بيوى كے دل ميں خاوند كى محبت اور اس سے راضى ہونے كو پيدا كرتا ہے، اور اس سے آپس ميں محبت و مودت پيدا ہوتى ہے، اور گھر كے كونے كونے ميں رحمدلى و رحمت پھيل جاتى ہے.

اور اگر آپ دونوں كے اختلافات اور مشكلات كے اسباب آپ كى بيوى كى جانب سے ہيں تو بھى آپ اسے حكمت سے حل كر سكتے ہيں، اور وعظ و نصيحت كے ساتھ اسے ختم كيا جا سكتا ہے، اور اصل اور غالبا خاوند كے ليے سب سے آسان يہ ہے كہ وہ اپنى بيوى كو اپنى جانب سے اطاعت گزار بنا لے، اور اسے ايسى بنائے كہ وہ جسے ناپسند كرتى تھى پسند كرنے لگے، اور جسے پسند كرتى تھى اسے ناپسند كرنے لگے؛ كيونكہ جب بيوى ايك شخص كو خاوند بنانے پر راضى ہو سكتى ہے تو وہ اس پر راضى ہو سكتى ہے كہ وہ اپنے خاوند كى رغبات اور اس كے اہتمامات كے مطابق زندگى بسر كرے، اور يہ شرط نہيں كہ اس كى محبت پر وہ اس سے راضى ہو، اور اصل ميں يہ بيويوں كى طبعيت ہے.

اس ليے كيونكہ عورت تو خاوند كے تابع ہوتى ہے، اور اسى بنا پر مسلمان عورت كا كسى كافر شخص سے شادى كرنا حرام كيا گيا ہے، اور اسى ليے يہاں يہ بھى وصيت كى گئى ہے كہ بہتر خاوند اختيار كيا جائے، اور وہ صاحب دين اور صاحب اخلاق ہو؛ تا كہ عورت پر اس كے دين اور اخلاق كا منفى اور سلبى اثر نہ ہو.

دوم:

اور بعض اوقات خاوند اور بيوى كى طبيعت آپس ميں موافق نہيں ہوتى، نہ تو خاوند اپنى بيوى كے ساتھ معاملہ سلجھانے ميں اچھا ہوتا ہے، اور نہ ہى بيوى اپنے خاوند كى مباح رغبات كو مكمل كرنے والى ہوتى ہے، تو يہاں ان دونوں كے مابين اختلاف كى ابتدا ہوتى ہے.

اور ان دونوں كا بطور خاوند اور بيوى اكٹھے رہنا وقت كا ضياع اور مشكلات كو زيادہ كرنے اور گناہ ميں اضافہ كا باعث بنتا ہے، دونوں فريقوں كو علم ہونا چاہيے كہ اگر ان كى پہلى شادى ناكام ہوئى تو دوسرى شادى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جب تك وہ اپنى طبيعت اور سلوك و عادت كو تبديل نہيں كرتے.

سوال ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے مطابق ہم يہى كہينگے كہ:

اگر خاوند اپنى بيوى كى جانب سے اپنى اصلاح نہيں ديكھتا، اور وہ خود يعنى خاوند ان مشكلات كا سبب نہيں ہے تو پھر اس كے سامنے طلاق كے علاوہ كوئى اور راستہ نہيں، كيونكہ آخرى علاج تو سلاخ كے ساتھ داغ لگانا ہى ہوتا ہے!

اس كے ليے شرط نہيں كہ بيوى اس حل پر راضى ہو، كيونكہ طلاق كے ليے بيوى كى رضامندى كا اعتبار نہيں، بلكہ ہم نے كئى ايك اسباب كى بنا پر ان مشكلات كا حل طلاق كہا ہے:

اول:

آپ كى بيوى كى حالت كى اصلاح مشكل ہے، اور آپ كى اتنى مدت اس طرح بيت گئى ہے اور اختلافات موجود ہيں.

دوم:

آپ كے ماحول اور معاشرے كى بنا پر آپ دوسرى شادى كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے.

سوم:

بيوى كا آپ كى جنسى رغبت پورى نہ كرنے كى بنا پر حرام ميں پڑنے كا خدشہ.

اس ليے آپ اسے آخرى موقع اور فرصت ديں اور اس كے ليے وقت مقرر كريں كہ اتنى مدت كے اندر اپنى حالت اصلاح كر لے، اور اگر اس كى جانب سے كوئى تبديلى پيدا ہو تو پھر آپ اسے طلاق دينے كوئى تردد نہ كريں.

اور آپ حرام ميں پڑنے سے اجتناب كريں، كيونكہ آپ اس وقت اللہ كى شريعت ميں محصن يعنى شادى شدہ كہلاتے ہيں اور اس صورت ميں زنا كے ارتكاب ـ اللہ نہ كرے ـ كى حد رجم ہے اور اللہ تعالى كى حدود پامال كرنے والوں كے ليے بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، اور جو اللہ كے حرام كردہ فحش كاموں ميں پڑتے ہيں ان كو سخت سزا كى وعيد ہے، اس ليے آپ اس سے بہت شدت كے ساتھ اجتناب كريں.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب