سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

فطرانہ دينے ميں غلہ اور كھانا كى اقسام

سوال

فطرانہ ميں كيا كچھ ديا جا سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فطرانہ دينے ميں وہى چيز اختيار كى جائيگى جسے لوگ بطور خوراك استعمال كرتے ہيں، مثلا گندم، مكئ اور چاول، لوبيا دال، چنے، مكرونہ، اور گوشت وغيرہ، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ ميں ايك صاع فرض كيا ہے، اور صحابہ كرام بھى فطرانہ ميں وہى چيز ديا كرتے تھے جسے وہ بطور خوراك استعمال كرتے.

بخارى اور مسلم نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عيد الفطر كے دن ايك صاع غلہ بطور فطرانہ ادا كيا كرتے تھے.

ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: ان ايام ميں ہمارى خوراك جو اور منقہ اور پنير اور كھجور تھى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1510 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 985 ).

ايك روايت ميں ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى ميں ہم ہر چھوٹے اور بڑے آزاد اور غلام كى جانب سے ايك صاع كھانا، يا ايك صاع پنير يا ايك صاع جو يا ايك صاع كھجور يا ايك صاع منقہ بطور فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "

اس حديث ميں لفظ طعام يعنى كھانے كى شرح سب اہل علم نے گندم كى ہے، اور كچھ دوسرے علماء كہتے ہيں كہ طعام سے مقصود وہ چيز ہے جو علاقے كے لوگ بطور خوراك استعمال كرتے ہوں، چاہے وہ گندم ہو يا مكئى وغيرہ، اور صحيح بھى يہى ہے؛ كيونكہ فطرانہ اور زكاۃ اغنياء كى جانب سے فقراء كے ليے رحمدلى اور خير خواہى ہے، اس ليے مسلمان كے ليے واجب نہيں كہ وہ اپنے علاقے كى خوراك كے علاوہ كسى اور چيز كے ساتھ ان كى غمخوارى كرے.

بلاشك و شبہ حرمين يعنى سعوديہ ميں چاول ہى علاقے كى خوراك ہے اور چاول خوشى سے كھايا جاتا ہے، اور پھر نص ميں وارد جو سے افضل بھى ہے، اس ليے معلوم ہونا چاہيے كہ فطرانہ ميں چاول دينے ميں كوئى حرج نہيں " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 14 / 200 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن اگر علاقے كے لوگوں كى خوراك ان ميں كوئى ايك جنس ہو تو بلاشك و شبہ انہيں اپنى خوراك ميں فطرانہ دينے ميں جائز ہے.

اور كيا وہ اپنى خوراك كے علاوہ كسى اور جنس ميں فطرانہ ادا كر سكتے ہيں يا نہيں ؟ مثلا ان كى خوراك تو چاول اور مكئى ہو تو وہ گندم يا جو فطرانہ ميں ديں، يا چاول اور مكئى وغيرہ فطرانہ ميں دينا كافى ہو گا ؟

اس ميں نزاع و اختلاف مشہور ہے، اور سب اقوال سے صحيح قول يہى ہے كہ وہ اسى چيز ميں فطرانہ ادا كرے جسے وہ اپنى خوراك استعمال كرتا ہے، چاہے وہ ان اجناس ميں شامل نہ بھى ہو، اكثر علماء كرام مثلا شافعى وغيرہ كا قول يہى ہے.

كيونكہ صدقات ميں اصل يہى ہے كہ فقراء و مساكين كى غمخوارى كے ليے واجب ہوتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

درميانہ درجہ كا جسے تم اپنے اہل و عيال كو كھلاتے ہو .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ ميں ايك صاع كھجور يا جو فرض كيا ہے؛ كيونكہ اہل مدينہ كى خوراك يہى تھى، اور اگر اہل مدينہ كى يہى اشياء خوراك نہ ہوتى اور وہ بطور خوراك كوئى اور جنس استعمال كرتے ہوتے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں فطرانہ ميں وہ چيز دينے كا مكلف نہ بناتے جسے وہ خوراك استعمال نہ كرتے تھے، جس طرح اللہ تعالى نے بھى كفارات ميں اس كا حكم نہيں ديا " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 68 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل مدينہ كى خوراك غالبا يہى اشياء تھيں، ليكن اگر كسى علاقے اور محلہ والوں كى خوراك اس كے علاوہ ہو تو انہيں اپنى خوراك ميں سے ايك صاع فطرانہ ادا كرنا ہوگا، جس طرح كہ اگر كسى كى خوراك مكئى يا چاول ، يا پھر انجير وغيرہ دوسرے دانے ہوں تو وہ يہى اشياء ادا كريگا، اور اگر ان كى خوراك دانے كے علاوہ كچھ اور ہو مثلا پنير اور گوشت اور مچھلى تو وہ اپنى خوراك ميں سے ايك صاع فطرانہ ادا كريں گے چاہے وہ كچھ بھى ہو جمہور علماء كا قول يہى ہے، اور صحيح بھى يہى ہے اس كے علاوہ كوئى اور قول نہيں كہا جائيگا.

كيونكہ فطرانہ كا مقصد تو مساكين و فقراء كى عيد والے دن ضرورت پورى كرنا ہے، اور علاقے كے لوگوں كى خوراك كے ساتھ ان كى غمخوارى كرنا ہے، اس ليے آٹا دينا بھى جائز ہے، اگرچہ اس ميں وارد حديث صحيح نہيں ہے "

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 12 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صحيح يہى ہے كہ جو چيز بھى خوراك ہو چاہے وہ دانے ہوں يا پھل اور گوشت وغيرہ تو وہ فطرانہ ميں كافى ہو گى " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 183 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب