الحمد للہ.
آپ کویہ علم ہونا ضروری ہے کہ آپ کے لیے یہ جائز نہيں کہ اپنی بیوی کوگندے اورنجس کام کرنے پر مجبور کرسکیں ، یا پھر کوئي ایسا کام کرنے پر مجبور کریں جس کی بنا پر گندگی پیٹ اورمنہ میں جائے یہ صحیح نہیں ۔
بلکہ آپ پر لازم اورضروری ہے کہ آپ طبعی طریقے پر اس سے مباشرت کریں ، اورآپ کی بیوی کوبھی یہ علم رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کے بستر کوچھوڑے جب وہ اسے مشروع اورصحیح کام کی دعوت دیتا ہے تو اسے اس کی بات تسلیم کرنی ضروری ہے کیونکہ یہ خاوند کا حق ہے کہ وہ بیوی سے اللہ تعالی کا مباح کردہ استمتاع اورنفع حاصل کرے ۔
بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر کسی شرعی عذر کے اپنے خاوند سے علیحدہ رہے اوراسے اس کا حق نہ دے ، اس کے بارہ میں بہت سی احادیث وارد ہیں جن میں اس عورت کے لیے بہت ہی سخت قسم کی وعید بیان کی گئي ہے جو اپنے خاوند سے دور رہتی ہے جن میں سے ذیل میں ہم چند ایک کا ذکر کرتے ہیں :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب کوئي شخص اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے اورخاونداس پر ناراضگی کی حالت میں ہی رات بسر کردے تو اس عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری بدء الخلق حدیث نمبر ( 2998 ) ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب عورت اپنے خاوند کا بستر چھوڑ کررات بسر کرے تواس کے واپس آنے تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری کتاب النکاح حدیث نمبر ( 4795 ) ۔
ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جوشخص بھی اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوراس کی بیوی آنے سے انکار کردے توآسمان والا اس پر ناراض رہتا ہے حتی کہ اس کا خاوند اس سے راضي ہوجائے ) صحیح مسلم کتاب النکاح حدیث نمبر ( 1736 ) ۔
طلق بن علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب خاوند اپنی بیوی کواپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تواسے آنا چاہیے ، اگرچہ وہ تنور پرہی کیوں نہ ہو ) سنن ترمذی کتاب الرضاع حدیث نمبر ( 1080 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 927 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اورجب عورت اپنے خاوند کے ساتھ رات گزارنے اوراس کے بستر میں جانے سے رک جائے تواس کا حق نفقہ اورتقسیم کا حق بھی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ نفقہ تواستمتاع کے بدلےمیں ہے ، اورایسی عورت کواپنے خاوند کی نافرمان کہا جائے گا ۔
البہوتی کا کہنا ہے :
نشوز یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کواپنے استمتاع سے منع کردے یا اس کی بات زچ ہوکر تسلیم کرے ، مثلاجب وہ اسے بلائے توحیل وحجت سے کام لے ، یا پھر اس کی بات اس وقت تک تسلیم نہ کرے جب تک خاوند اسے مجبور نہیں کرتا ۔
دیکھیں شرح منتھی الارادات للبھوتی ( 3 / 55 ) ۔
اورجب بیوی نافرمانی کرنے لگے تواس کا نفقہ ختم اس لیے کہ نفقہ تو اطاعت اوراپنے آپ کوخاوند کے سپرد کرنے کے عوض میں تھا ۔
اورنشوز یہ ہے کہ بیوی پر جوخاوند کے حقوق میں سے واجب ہیں وہ ان میں خاوند کی نافرمانی کرنے لگے تواسے نشوز کہا جاتاہے ، اللہ تعالی نے بھی خاوند کے لیے یہ بیان کیا ہے کہ اسے بیوی کی نافرمانی کی حالت میں کیا کرنا چاہیے اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
اورجن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرو ، اورانہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اورانہیں مار کی سزا دو ، پھر اگر وہ تمہاری بات تسلیم کرلیں تو ان پر کوئي راستہ تلاش نہ کرو ، بے شک اللہ تعالی بڑي بلندی اوربڑائي والا ہے النساء ( 34 ) ۔
فقھاء رحمہم اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
اگرنافرمانی کرنے والی بیوی وعظ ونصیحت اوراسے بستر میں علیحدگی یعنی جب تک وہ اپنی نافرمانی پر قائم ہے اس سےاللہ تعالی کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اورانہیں الگ بستروں میں چھوڑ دو مضاجعت اورتین دن تک کلام نہ کرنے کے باوجود وہ اپنی نافرمانی پر مصر ہے تواسے مار کی سزا دی جائے گی لیکن مار میں سختی نہیں ہونی چاہیے ۔
اورخاوند کے لیے اس حالت میں اسے طلاق دینا جائز ہے ، المرداوی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
بیوی کے برے اخلاق اوراس کی سوء معاشرت وغیرہ کے سبب سے ضرورت کے وقت طلاق دینا مباح ہے ، اوراسی طرح اس سے تنگی ہونے اورغرض پوری نہ ہونے کے وقت ، ان کا کہنا ہے کہ اس حالت میں بغیر کسی اختلاف کے طلاق مباح ہے ۔ دیکھیں الانصاف ( 8 / 430 ) ۔
اوراگر وہ آپ سے نفرت کرنے لگی اورآپ سے کراہت کرنے لگی ہے جس کا آپ حل نہیں نکال سکتے تو اس وقت طلاق دینا مستحب ہے ، اس لیے کہ اس حالت میں نکاح باقی رکھنے سے بیوی کونقصان ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( نہ توکسی کونقصان دو اورنہ ہی خود نقصان اٹھاؤ ) اھـ ۔ دیکھیں الملخص الفقھی ( 2 / 305 ) ۔
اورایسی حالت میں طلاق دینے میں کوئي گناہ نہیں ، اورآپ کی مالی مشکلات کے بارہ میں گزارش یہ ہے کہ آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ ایسی عورت سےشادی کرلیں جواپنا خرچہ خود برداشت کرسکتی ہو یا پھرآپ کی کچھ مالی مسؤلیت سے ہی گزارے کرنے پر راضي ہوجائے ۔
اوراسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ آپ اپنی پہلی بیوی سے کچھ معاملات پر صلح کرلیں اوربیوی کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ اپنے کچھ حقوق خاوند کوچھوڑ دے جس میں نفقہ اورتقسیم وغیرہ شامل ہوں تا کہ وہ اسے طلاق نہ دے اوراپنے پاس ہی رکھے ۔
اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
اوراگرعورت اپنے خاوند کی نافرمانی سے ڈرے یا پھر اسے اس کے اعراض کا ڈر ہو توان دونوں پرکوئي حرج نہیں کہ وہ صلح کرلیں اورصلح کرنا ہی بہتر ہے ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کا فرمان ہے کہ :
یہ اس طرح ہے کہ عورت کسی شخص کے پاس ہو اوراس کا خاوند اسے طلاق دینا چاہے وہ بیوی اسے کہے کہ مجھے اپنے پاس ہی رکھو اورطلاق نہ دو مجھ پر نفقہ اورتقسیم میں تجھے آزادی ہے ۔
دیکھیں الملخص الفقھی ( 2 / 296 ) ۔
اوراس لیے بھی کہ نفقہ بیوی کا حق ہے توجب بھی خاوند اوربیوی آپس میں صلح کرلیں اوربیوی اپنے اس پورے حق یا پھر اس میں کچھ حصہ کوچھوڑ دے یہ اس کے لیے جائز ہے ، تو اس بنا پر جب وہ عورت جس سے شادی کرنا چاہے وہ اپنے نفقہ کے حق کوچھوڑ دے وہ اس کے لیے جائز ہے ۔
واللہ اعلم .