جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ضخيم اور زيادہ ہونے كے باعث فوائد دينا

12541

تاریخ اشاعت : 13-12-2019

مشاہدات : 7441

سوال

كيا قرض بہت زيادہ ہونے كے باعث فوائد دينا حرام ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں قرض ميں فائدہ دينا حرام ہے، چاہے وہ بہت زيادہ ہونے كے باعث ہى ہو.

علماء كرام كا اتفاق ہے كہ جب قرض ميں ادائيگى كرتے وقت زيادہ دينے كى شرط ركھى جائے تو يہ سود ہے جسے اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كيا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور ہر وہ قرض جس ميں زيادہ ادا كرنے كى شرط ركھى جائے وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان كا اس پر اجماع ہے كہ جب ادھار دينے والا ادھار لينے والے كو زيادہ دينے، يا ہديہ دينے كى شرط لگائے، اور اس شرط پر ادھار دے تو وہ زيادہ لينا سود ہے.

ابى بن كعب، ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے كہ انہوں نے ايسے قرض سے منع كيا ہے جو نفع كھينچ كر لائے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 6 / 436 ).

اور علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ قرض كى ادائيگى ميں اتنا مال ہى واپس كرنا واجب ہے جتنا ليا گيا تھا، اور اگرچہ ادائيگى كے وقت قرض لينے والے دن كى قيمت سے كم ہو جائے يا زيادہ ہو.

ليكن امام احمد رحمہ اللہ نے ايك صورت اس سے مستثنى كى ہے وہ يہ ہے كہ: اگر حكمران نے اس كرنسى ميں لين دين ختم كر ديا ہو جس ميں قرض حاصل كيا گيا تھا، تو پھر وہ اس كى قيمت اس دن والى لگائےگا جس دن اس نے قرض ليا تھا، اوراتنى قيمت كى نئى كرنسى ميں قرض كى ادائيگى كريگا، يہ اس ليے كہ اس كرنسى كا لين دين ختم كر ديا گيا ہے، جس كى وجہ سے اس كرنسى كى قيمت ختم ہو گئى اور وہ بلا قيمت ہو چكى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہم نے بيان كيا ہے كہ مقروض شخص اتنا ہى واپس كريگا جتنا قرض اس نے ليا تھا، چاہے اس كا ريٹ كم ہو چكا يا وہ مہنگا ہو چكا ہو، يا اپنى حالت ميں ہى ہو..... اور اگر قرض پيسے ہوں اور حكمران نے ان پيسوں كو حرام كر ديا ہو، اور اس كا لين دين ختم ہو چكا ہو، تو پھر قرض خواہ كے ليے اس كى قيمت لينا جائز ہے، اور اسے وہى قبول كرنے لازم نہيں...

اور امام مالك، ليث بن سعد اور امام شافعى رحمہم اللہ كہتے ہيں: اسے وہى لينے كا حق ہے جو اس نے قرض ديا تھا؛ كيونكہ يہ كوئى عيب نہيں ہے جو اس ميں پيدا ہوا ہے، تو يہ اس كے ريٹ ميں كمى كے قائم مقام ہوگا، ہمارے اس قول كى دليل يہ ہے كہ:

حكمران كا اسے حرام قرار دينا اس كى ماليت كو ختم اور اسے خرچ كرنے سے روكتا ہے، تو يہ اس كے اجزاء كے تلف كے مشابہ ہوا، ليكن ريٹ ميں كمى تو اسے واپس كرنے ميں ركاوٹ نہيں ہوتى چاہے وہ زيادہ ہو يا كم؛ كيونكہ اس ميں كوئى چيز پيدا نہيں ہوئى، بلكہ اس كا ريٹ ہى بدلا ہے تو يہ گندم كے مشابہ ہوا كہ جب اس كا ريٹ كم ہو جائے يا زيادہ " اھـ مختصرا

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 6 / 441 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب