سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مقتدى كو اجتھادى مسائل ميں اپنے امام كى اقتدا كرنى چاہيے

12585

تاریخ اشاعت : 18-01-2009

مشاہدات : 8611

سوال

اگر كوئى امام وتر بالكل نماز مغرب كى طرح ادا كرے تو كيا ميں اس كى اقتدا كروں يا نہ كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حديث ميں ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز مغرب كى طرح وتر ادا كرنے سے منع فرمايا ہے، اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (38230) كے جواب كا مطالعہ كريں.

دوم:

اگر امام نماز ميں مقتدى كے اعتقاد كے خلاف كوئى عمل كرے، يا پھر امام كوئى ايسا فعل ترك كردے جو مقتدى واجب سمجھتا ہو، تو كيا مقتدى اس كى اقتدا كرے يا نہيں، اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے ؟

شيخ الاسلام ابن تميمہ رحمہ اللہ تعالى نے اس مسئلہ ميں اختلاف ذكر كرنے كے بعد اختيار كيا ہے كہ: اگر وہ مسئلہ اجتھادى مسائل ميں سے ہو تو مقتدى امام كى اقتدا كرے.

" الفتاوى الكبرى " ميں شيخ الاسلام كہتے ہيں:

" علماء كرام كے ہاں اس مسئلہ ميں تنازع پايا جاتا ہے كہ: اگر امام كوئى ايسا فعل ترك كردے جو مقتدى كے ہاں واجب ہو، مثلا امام بسم اللہ نہ پڑھے اور مقتدى كے نزديك بسم اللہ پڑھنى واجب ہو، يا پھر وہ اپنى شرمگاہ كو چھوئے اور وضوء نہ كرے، ليكن مقتدى كے نزديك ايسا كرنے سے وضوء كرنا ہو، يا پھر اس ميں مرے ہوئے جانور كى دباغت شدہ كھال ميں نماز ادا كى اور مقتدى كے نزديك دباغت سے چمڑا پاك نہيں ہوتا، يا پھر وہ سنگى لگوانے كے بعد وضوء نہ كرے، اور مقتدى كے نزديك سنگى سے وضوء كرنا ضرورى ہو، تو قطعى طو پر صحيح يہ ہے كہ اس امام كے پيچھے مقتدى كى نماز صحيح ہے، چاہے امام اس معاملہ ميں غلط بھى ہو.

كيونكہ صحيح ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے كہ:

" وہ تمہيں نماز پڑھائيں گے اگر تو صحيح پڑھائى تو تمہارے اور ان كے ليے ہے، اور اگر انہوں نے غلطى كو تو تمہارے ليے( اجروثواب ) اور ان پر ( وبال ) ہے "

اور اسى طرح نماز فجر ميں قنوت كرنے والے امام كى اقتداء نماز ادا كرنا، يا پھر نماز وتر ميں قنوت كرنے والے امام كى اقتدا ميں نماز ادا كرے تو امام كے ساتھ مقتدى بھى قنوت كرے، چاہے امام ركوع سے قبل يا بعد قنوت كرتا ہو اور اگر وہ قنوت نہيں كرتا تو اس كے ساتھ قنوت نہ كرے، اور اگر امام كسى چيز كو مستحب سمجھتا ہو اور مقتدى اسے مستحب نہ سمجھيں تو اتفاق و اتحاد كى بنا پر وہ اسے ترك كردے تو يہ بہتر ہے.

اس كى مثال وتر ہے، كيونكہ اس ميں علماء كرام كے تين اقوال ہيں:

پہلا قول:

وتر اكٹھے تين ادا كرنے ضرورى ہيں اس كے علاوہ نہيں ہوتے، جس طرح مغرب كى نماز ہے.

يہ اہل عراق ميں سے كچھ كا قول ہے.

دوسرا قول:

آخر ميں ايك ركعت عليحدہ ادا كى جائے تو وتر ادا ہو گا، يہ اہل حجاز كا قول ہے.

تيسرا قول:

دونوں طرح جائز ہے، جيسا كہ امام شافعى، امام احمد وغيرہ كا مسلك ظاہر ہے، اور يہى صحيح ہے.

اور اگر يہ پہلى ركعات سے آخرى ركعت عليحدہ كرنا اختيار كرتے ہيں، اور اگر امام عليحدہ ادا كرنے كى رائے ركھتا ہو اور مقتدى مغرب كى طرح اكٹھے ادا كرنے كو اختيار كريں تو وہ تاليف قلب كے ليے ان كى موافقت كرے تو يہ بہتر ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اگر تيرى قوم دور جاہليت كے قريب نہ ہوتى تو ميں كعبہ كو منہدم كر كے زمين كے ساتھ ملا ديتا، اور اس كے دو دروازے بناتا، ايك دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے باہر نكل جاتے "

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے نزديك افضل چيز كو اس ليے ترك كيا كہ لوگ متنفر نہ ہو جائيں" اھـ

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 117 ).

اور الفتاوى الكبرى ميں ہى ايك مقام پر كچھ اس طرح رقمطراز ہيں:

" جب امام كوئى ايسى چيز ترك كر دے جو مقتدى كے نزديك واجب ہو .... تو اس ميں دو قول ہيں:

ان ميں سے صحيح يہ ہے كہ مقتدى كى نماز صحيح ہے، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور اس طرح كے مسائل ميں امام احمد رحمہ اللہ تعالى كى زيادہ صريح روايت يہى ہے، اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى سے بھى يہى بيان كيا جاتا ہے، كيونكہ مالكيوں كے پيچھے نماز ادا كرتے تھے جو كہ بسم اللہ نہيں پڑھتے، حالانكہ امام شافعى رحمہ اللہ تعالى بسم اللہ پڑھنے كے وجوب كے قائل ہيں، اس كى دليل صحيح بخارى وغيرہ كى حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" وہ تمہيں نماز پڑھائيں گے، اگر تو صحيح ہوئى تو تمہارے اور ان كے ليے ہے، اور اگر انہوں نے غلطى كى تو تمہارے ليے ( اجروثواب ) اور ان كے ليے ( وبال ) ہے "

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امام كى غلطى امام پر ہى ڈالى ہے نہ كہ مقتدى پر.

اور ان مسائل ميں اگرچہ امام كا مذہب ہى صحيح ہو اس ميں كوئى نزاع نہيں، اور اگر وہ غلطى پر ہو تو يہ غلطى اس كے ساتھ ہى مختص ہے، اور اس ميں تنازع كرنے والا ( يعنى جو يہ رائے ركھے كہ مقتدى اس كى اقتدا نہ كرے ) كہتا ہے:

مقتدى اپنے امام كى نماز باطل ہونے كا اعتقاد ركھتا ہے، ( شيخ الاسلام ) كہتے ہيں: حالانكہ ايسا نہيں، بلكہ اس كا اعتقاد يہ ہے كہ امام اجتھاد يا تقليد ميں نماز ادا كر رہا ہے، اگر وہ صحيح ہوا تو اسے ڈبل اجر ہے، اور اگر وہ غلطى پر ہوا تو اسے ايك اجر ملے گا " اھـ

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 320 ).

اور " الاختيارات الفقھيۃ " ميں كہتے ہيں:

" اگر امام ايسا فعل كرے جو مقتدى كے ہاں حرام ہے جس ميں اجتھاد جائز ہے تو اس كے پيچھے اس كى نماز صحيح ہے، امام احمد سے مشہور يہى ہے، اور وہ كہتے ہيں: امام احمد سے منقول روايات اختلاف واجب نہيں كرتيں، بلكہ ان كا ظاہر يہ ہے كہ ہر جگہ جس ميں مخالف خطاء قطعى ہو اس كا اعادہ واجب ہے، اور جس ميں مخالف خطاء قطعى نہ ہو اس ميں اعادہ واجب نہيں، سنت اور آثار اور اصولى قياس اسى پر دلالت كرتے ہيں، اور اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف مشہور ہے " اھـ

ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 70 ).

اس ليے آپ امام كى اقتدا كريں، كيونكہ يہ اجتھادى مسائل ميں سے ہيں جن ميں آئمہ كرام نے اختلاف كيا ہے.

اور اگر امام كو نصيحت كرنا اور دلائل كے ساتھ سنت واضح كرنا ممكن ہو تو يہ كرنا ضرورى ہے.

گمراہى اور حقيقت كو الٹنا كر پيش كرنا ہے"

ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 1 / 319 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب