جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

اگر کوئی کمپنی کسی صارف کے ساتھ کار یا پراپرٹی رینٹ کا معاہدہ ایسے کرے کہ وہ آخر کار بیع بن جائے، تو اس کا کیا حکم ہے؟

سوال

ہمارے ہاں تونس میں ایسی کمپنیاں ہیں جو اپنے آپ کو رینٹل کمپنی قرار دیتی ہیں، یہ صارف کے مطالبے پر گاڑیاں اور پراپرٹی خرید کر پہلے اپنے نام رجسٹر کرواتی ہیں اور پھر مقررہ مدت کے لیے صارف کو کرائے پر دیتی ہیں جو کہ آخر کار بیع میں بدل جاتا ہے، واضح رہے کہ یہ کمپنیاں کرائے پر دیتے ہوئے منافع بھی کماتی ہیں، اس میں کرایہ دار کو رقم فراہم نہیں کی جاتی بلکہ کمپنی خود متعلقہ چیز خرید کر اپنے نام لگواتی ہے اور صارف کو اس کی ملکیت تبھی حاصل ہوتی ہے جب کرایہ داری کے معاہدے کے مطابق آخری قسط ادا ہو جائے، تو سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے لین دین کرنا جائز ہے؟ یا یہ در پردہ سود کے زمرے میں آتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ نے سوال میں جو صورت ذکر کی ہے یہ "اجارہ منتہیہ بالتملیک " کہلاتا ہے، اس کی جائز اور ناجائز دونوں طرح کی صورتیں ہیں۔

چنانچہ اگر کمپنی کی طرف سے صارف کو مثلاً: گاڑی معینہ مدت کے لیے کرایہ پر دی جاتی ہے، اور پھر گاڑی کی ملکیت خود بخود بغیر کسی نئے معاہدے کے صارف کی جانب منتقل ہو جاتی ہے کہ اجارے کا معاہدہ ختم ہوتے ہی بیع میں خود بخود تبدیل ہو جائے تو یہ حرام صورت ہے۔

اسی طرح اگر کمپنی کی جانب سے صارف کے ساتھ عقدِ اجارہ اور عقدِ بیع ایک ہی وقت میں اکٹھا کیا جائے تو یہ بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح ایک ہی مبیع میں دو متضاد کاروباری معاہدے جمع ہو جائیں گے۔

جبکہ جائز صورتوں میں سے ایک یہ ہے کہ: عقدِ اجارہ کے ساتھ بیع کا وعدہ شامل ہو، پھر جب عقدِ اجارہ ختم ہو تو مؤجر اور مستاجر مخصوص قیمت پر بیع کریں تو یہ جائز ہے۔

اسی طرح یہ بھی جائز صورت ہے کہ عقدِ اجارہ کے ساتھ یہ بھی معاہدہ ہو کہ کرایہ پر دی گئی چیز صارف کو تحفۃًدے دی جائے گی لیکن تحفے کو مکمل کرایہ ادا کرنے کے ساتھ معلق کیا جائے۔ یا پھر عقدِ اجارہ کے ساتھ یہ بھی شامل ہو کہ مکمل کرایہ ادا کرنے پر وہ چیز صارف کو تحفۃً دینے کا وعدہ ہو۔ تو یہ بھی جائز صورت ہے۔

تاہم تمام جائز صورتوں میں یہ شرط ہے کہ اجارہ حقیقی معنوں میں اجارہ ہو، در پردہ بیع نہ ہو، چنانچہ کرایہ پر دی جانے والی چیز گاڑی یا مکان کا ضامن مؤجر یعنی مالک ہو، مستاجر نہ ہو، اسی طرح کرایہ داری کی مدت کے دوران اس چیز کی مرمت اور اصلاح کی ذمہ داری بھی مؤجر پر ہو مستاجر پر نہ ہو، یہ دونوں چیزیں بیع میں نہیں ہوتیں؛ کیونکہ بیع کی صورت میں مشتری ضامن بھی ہوتا ہے اور اس کی اصلاح و مرمت بھی بیع کا معاہدہ ہوتے ہی مشتری پر عائد ہو جاتی ہے۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (1/286) میں ہے کہ:
"دوران کرایہ داری کرائے کی چیز کی اصلاح و مرمت کی شرط مستاجر پر لگانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح معاملے کا پتہ نہیں چلے گا کہ یہ اجارہ ہے یا بیع؟ بلکہ اس سے عقدِ اجارہ تمام فقہی مذاہب کے مطابق متفقہ طور پر فاسد ہو جائے گا۔" ختم شد

اسلامی فقہ اکادمی کی جانب سے "اجارہ منتہیہ بالتملیک " کے متعلق قرار داد جاری کی جا چکی ہے ، اور اس میں جائز اور ممنوع شکلوں کی وضاحت ہے، ہم اس کے متعلق تفصیلات سوال نمبر: (97625) میں بیان کر چکے ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (14304 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اگر کمپنی کی جانب سے کرایہ ایڈوانس ادائیگی کی صورت میں طلب کیا جاتا ہے کہ جسے بعد میں کرایہ سے منہا کر دیا جائے گا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن کمپنی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر مستاجر کرایہ داری کی مدت مکمل نہیں کرتا تو اس ساری رقم پر قبضہ کر لے، ہاں صرف اتنی رقم رکھ سکتی ہے جتنی دیر وہ چیز مستاجر کے پاس رہی ہے۔

ہم آپ کو یہ مشورہ دیں گے کہ آپ اس کمپنی کے معاہدے کے تمام شرائط و ضوابط لے کر اسلامی معیشت کے ماہرین کے سامنے پیش کریں اور ان سے رہنمائی لیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب