سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

|جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے اتنا کافی ہے کہ کنکری حوض میں گر جائے۔

126231

تاریخ اشاعت : 01-09-2016

مشاہدات : 5847

سوال

 کیا جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے اتنا کافی ہے کہ کنکری جمرے کے ارد گرد بنے ہوئے حوض میں گر جائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

منیٰ میں جمرات کو کنکریاں مارنے کا مطلب یہ ہے کہ مخصوص تعداد میں  کنکریاں مارنے کی جگہ پر کنکریاں ماری جائیں، کنکریاں مارنا حج کے عظیم شعائر میں سے ایک ہے ، حجاج کرام منی کے مخصوص ایام میں کنکریاں مارتے ہیں۔
جمرے سے مراد وہ ستون  نہیں ہے جو کہ حوض کے درمیان میں بنا ہوا ہے، بلکہ اس ستون کے ارد گرد کا علاقہ کنکری مارنے کی جگہ ہے ، لہذا جس شخص کی کنکری اس ستون کے ارد گرد بنے ہوئے حوض میں گر گئی تو تمام علمائے کرام کے ہاں اس کی رمی صحیح ہے ۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کنکریاں مارتے ہوئے کم از کم یہ ہے کہ کنکری  مخصوص جگہ پر گرے، چنانچہ اگر کوئی شخص کنکری مارے اور اسے معلوم نہ ہو کہ کنکری کہاں گئی تو دوبارہ مارے اس وقت تک کنکریاں صحیح شمار نہیں ہوں گی جب تک اسے یقین  نہ ہو جائے کہ کنکری مخصوص جگہ ہی گری ہے" انتہی
" الأم " (2/235)

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رمی [کنکریاں مارنے کا عمل] اس وقت تک صحیح نہیں ہو گی جب تک کنکری مخصوص جگہ پر نہ گر جائے؛ چنانچہ اگر مخصوص جگہ سے پہلے ہی کنکری گر جائے  تو متفقہ طور پر رمی کا عمل کفایت نہیں کرے گا؛ کیونکہ حاجی کو کنکری مخصوص جگہ مارنے کا حکم تھا اور اس نے وہاں تک کنکری نہیں پہنچائی۔
اور اگر مارنے کی بجائے کنکری مخصوص جگہ گرا دے تو بھی کفایت کر جائے گی؛ کیونکہ گرانے کو بھی عربی میں "رمی" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس صورت میں رمی صحیح ہونے کا موقف اہل رائے کا ہے، البتہ ابن قاسم کے ہاں اس انداز سے کی ہوئی رمی کفایت نہیں کرے گی۔
اگر کوئی شخص کنکری پھینکے  اور مخصوص جگہ تک پہنچنے سے پہلے ہوا میں ہی کوئی پرندہ اسے اچک لے تو رمی درست نہیں ہو گی ؛ کیونکہ کنکری مخصوص جگہ تک پہنچی ہی نہیں۔
اسی طرح اگر کنکری  مخصوص جگہ کی بجائے کسی اور ٹھوس مقام پر گری اور پھر وہاں سے پھسل کر مخصوص جگہ تک پہنچ گئی یا کسی انسان کے کپڑوں سے لگ کر مخصوص جگہ جا گرے تو بھی کافی ہو جائے گی ؛ کیونکہ کنکری مختص جگہ تک حاجی کے عمل سے ہی پہنچی ہے۔
اگر کنکری مارنے کے بعد شک گزرا کہ کیا کنکری مخصوص جگہ تک پہنچی ہے یا نہیں؟ تو اسے دوبارہ کنکری مارنی پڑے گی؛ کیونکہ اصل کے اعتبار سے کنکری مارنا حاجی کے ذمہ ہوتا ہے اور یہ ذمہ داری شک کی بنا پر ادا نہیں ہو گی؛ تاہم اگر ظاہر یہی ہو کہ کنکری مخصوص جگہ تک پہنچ گئی ہے تو اس کی رمی صحیح ہو گی ؛ کیونکہ ظاہر بھی دلیل ہے" انتہی
" المغنی " (3/219-220)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کنکری  کا مخصوص جگہ میں پڑے رہنا شرط نہیں ہے، لیکن یہ شرط ہے کہ کنکری مخصوص جگہ میں گرنی چاہیے، چنانچہ اگر کنکری مخصوص جگہ میں گر کر باہر نکل جاتی ہے تو اہل علم کی گفتگو سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی رمی کافی ہو گی، ان اہل علم میں نووی رحمہ اللہ بھی ہیں انہوں نے "المجموع" میں اس کی صراحت کی ہے، نیز ستون کو کنکری مارنا واجب عمل نہیں ہے بلکہ حوض میں گرانا  مسنون عمل ہے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز " (16/144-145)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رمی کیلیے شرط یہ ہے کہ کنکری حوض میں گرے، چنانچہ اگر کنکری حوض میں گر جائے تو حاجی بری الذمہ ہو جاتا ہے چاہے گرنے کے بعد کنکری حوض میں پڑی رہے یا کسی اور جگہ پھسل جائے۔
نیز کچھ لوگوں کو یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ کنکری ستون کو ضرور لگنی چاہیے، یہ درست نہیں ہے؛ کیونکہ  ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ کنکری ستون کو لگے، جبکہ ستون کو کنکریاں مارنے کیلیے مخصوص جگہ کی علامت کے طور پر بنایا گیا ہے کہ یہاں کنکری گرنی چاہیے، لہذا اگر کنکریاں مخصوص جگہ گرتی ہیں تو کافی ہیں چاہے بنے ہوئے ستون کو لگیں یا نہ لگیں" انتہی
" فقہ العبادات " ( صفحہ: 383 ، سوال نمبر:  279 )

اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"مقصد یہ ہے کہ کنکری حوض میں گے، چاہے ستون کو لگے یا نہ لگے" انتہی
" الشرح الممتع " (7/321)

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر کنکری کا حوض میں گرنا ضروری ہے ، چاہے کنکری حوض میں پڑی رہے یا پھسل جائے، لہذا اگر کنکری حوض میں نہیں گرتی تو وہ دوبارہ مارنی پڑے گی" انتہی
" الملخص الفقہی" (1/446)

مزید کیلیے سوا ل نمبر: (34420) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب