سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

قسطوں کے کاروبار کے شرعی ضوابط

سوال

قسطوں میں لین دین کرتے ہوئے ایسے کون سے ضوابط ہیں جو خریدار اور دکاندار کے حقوق کو تحفظ دیتے ہوئے معاشرے اور نظام تجارت کو محفوظ بناتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"مؤخر ادائیگی کے ساتھ خرید و فروخت کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان عام ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم مقررہ وقت تک ادھار پر لین دین کرو تو تم اسے لکھ لو۔[البقرۃ: 282]
وقت کے عوض قیمت میں اضافہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے جواز کی دلیل ملتی ہے، وہ اس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا کہ لشکر کو تیار کریں اور ایک اونٹ کو مؤخر ادائیگی کے دو اونٹوں کے عوض خرید لو۔ یہاں اس طرح کے لین دین میں شرعی تقاضوں کو جاننا ضروری ہے تا کہ خریدار اور فروخت کنندہ حرام لین دین میں ملوث نہ ہو جائیں؛ کیونکہ کچھ لوگ ایسے کرتے ہیں کہ ایسی چیز فروخت کر دیتے ہیں جو ابھی ان کے پاس نہیں ہے، بات پکی کرنے کے بعد جا کر چیز خرید کر گاہک کو تھما دیتے ہیں۔

جبکہ کچھ لوگ کوئی چیز خرید کر دکاندار کے پاس ہی رکھ دیتے ہیں اور پھر ابھی وہاں سے اپنے قبضے میں نہیں لیتے کہ آگے فروخت کر دیتے ہیں۔

یہ دونوں چیزیں جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ: (جو چیز تمہاری ملکیت میں نہ ہو تو اسے فروخت نہ کرو)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (ادھار اور بیع دونوں کو اکٹھا کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی ایسی چیز کو فروخت کرنا درست ہے جو ابھی آپ کے پاس نہیں ہے)
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو اناج خریدے تو اسے آگے اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک اسے پوری طرح اپنے قبضے میں نہیں لے لیتا)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "ہم اناج ڈھیری کی شکل میں خریدتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے پاس ایک شخص کو بھیجا جس نے ہمیں منع کیا کہ ہم اسے اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے فروخت کریں۔" مسلم
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا کہ جب تک تاجر سامان تجارت کو اپنے گھروں میں نہ لے جائیں اس وقت تک اسے فروخت نہ کیا جائے۔)

مذکورہ اور انہی جیسی دیگر احادیث میں متلاشیان حق کے لیے بالکل واضح ہے کہ: مسلمان کو کوئی ایسی چیز فروخت نہیں کرنی چاہیے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو اور پھر جا کر اسے خریدے۔ بلکہ واجب یہ ہے کہ بیع کو اس چیز کی خریداری تک مؤخر کرے اور پہلے اسے اپنی ملکیت میں لے، پھر فروخت کرے۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہو گیا کہ بہت سے لوگ یوں کرتے ہیں کہ ابھی چیز دکاندار کے پاس پڑی ہے، اسے اپنے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کر دیتے ہیں یہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی مخالفت ہے، اسی طرح لین دین میں خرابی پیدا ہوتی ہے، اور شرعی احکامات پر پابندی نہیں ہے جس کی وجہ سے بے شمار نقصانات اور برائیاں جنم لیتی ہیں۔" ختم شد
مجموع فتاوى ابن باز (19/15-17)

ماخذ: الاسلام سوال و جواب