جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حج کی قربانی ذبح کرتے ہوئے وکیل کو اپنے موکل کی تعیین کرنی ہو گی۔

سوال

کیا حج کی قربانی میرے لیے خود ذبح کرنا لازمی ہے؟ یا مکہ میں موجود قربانی کیلیے مختص کسی ادارے یا بینک کو اپنا وکیل بنا سکتا ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حج کی قربانی خود ذبح کرنا واجب نہیں ہے، چنانچہ کسی معتمد اور  امانتدار شخص کو  اپنی طرف سے وکیل بنا سکتا ہے۔

تاہم یہاں پر کسی کو وکیل بناتے ہوئے ایک بات کی طرف  تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ جانور ذبح کرتے ہوئے موکل شخص کی تعیین لازمی امر ہے، لہذا جانور ذبح کرتے ہوئے وکیل اپنے موکل کا نام لیکر تعین کرے گا، چنانچہ  کئی جانوروں کو  کئی لوگوں کی طرف سے تعیین کے بغیر ذبح کرنا صحیح نہیں ہے۔

اس بنا پر ایسے ادارے یا بینک  جو جانور ذبح کرتے ہوئے اپنے موکل کا نام لیکر ذبح نہیں کرتے  انہیں قربانی کیلیے وکیل بنانا جائز نہیں ہے، الّا کہ کوئی اور راستہ نہ ہو ، مثال کے طور پر مذبح خانے میں حاجی کا خود جانا  ممکن نہ ہو یا کسی معتمد  وکیل کا ملنا مشکل ہو ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کچھ حج گروپ ایسے ہیں جو  حجاج سے حج کی قربانی کیلیے  پیسے جمع کرکے ان کی طرف سے قربانی کرتے ہیں، لیکن بسا اوقات ہر ایک موکل کا نام لیکر ان کی طرف سے تسمیہ نہیں پڑھتے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟"
تو انہوں ے جواب:
"ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ جانور ذبح کرتے ہوئے موکل کی تعیین ضروری ہے، مثال کے طور پر: اگر حج گروپ میں 30 افراد ہوں  اور ان کے لیے 30 جانور خرید لیے جائیں اب ان کے پاس گروپ کے افراد کی لسٹ ہونی چاہیے، جیسے ہی کسی جانور کو ذبح کریں  تو کہیں  کہ یہ فلاں شخص کی قربانی ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعیین کرنا ضروری ہے، لیکن اگر 30 جانور 30 افراد کی طرف سے ذبح کر دیے جائیں تو یہ درست نہیں ہے" انتہی
"اللقاء الشهري" (73/32)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
"شیخ محترم! ہم نے آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ قربانی کی ذمہ داری کمپنیوں کو دینے سے خبردار کرتے ہیں، تو اب  ہمارے گذشتہ حجوں کا کیا ہو گا کہ ہم نے کئی حج اس طرح سے کیے ہیں، ہم ان کمپنیوں کو پیسے دے دیتے تھے اور وہ ہمارے نام نہیں لیکر جاتے تھے، اب وہ قربانیاں ہمارے حج کیلیے کافی تھیں؟ اگر نہیں تو اب اس کا کیا حل ہے؟"
انہوں نےجواب دیا:
ہم نے ان کمپنیوں کو قربانی کی ذمہ داری دینے سے خبردار نہیں کیا؛ کیونکہ حج کی قربانی  ضروری چیز ہے اور اس کیلیے انسان کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو وہ ان کمپنیوں کو  قربانی کیلیے وکیل بنا  دے یا پھر خود جانور ذبح کر کے وہیں چھوڑ دے، دوسرے طریقے کا نقصان یہ ہے کہ اس گوشت سے کوئی بھی مستفید نہیں ہو سکتا، اب اگر کوئی شخص  حج کی قربانی ذبح کرے اور اس میں سے اسے کھانے کیلیے بھی مل جائے ، تحفۃً بھی دے  تو یہ بہت ہی زیادہ بہتر اور اچھا ہے، ایسا کرنا صرف ان لوگوں کیلیے ممکن ہے جن کے جاننے والے مکہ مکرمہ میں موجود ہیں  کہ وہ انہیں اپنی قربانی کرنے کی ذمہ داری سپرد کر دیں  اور کہیں کہ ہماری قربانی  ذبح کریں ، تو ایسی صورت میں قربانی سے موکل خود بھی مستفید ہو گا، یا اس کا ایک حل یہ ہے کہ خود مکہ مذبح خانے جا کر جانور خریدے اور ذبح کرے وہاں پر قربانی کا گوشت وصول کرنے والوں کی بھیڑ ہوتی ہے ، لیکن میں اس بات کو سنگین غلطی سمجھتا ہوں کہ عید کی قربانی  کی قیمت کسی دوسرے ملک میں  قربانی کرنے کیلیے ارسال کی جائے، یہ بے دلیل عمل ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کا جانور مکہ میں ذبح کرنے کیلیے مکہ تو بھیجا کرتے تھے لیکن کسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ آپ نے عید کی قربانی کا جانور کسی جگہ بھیجا ہو، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے گھر میں اسے ذبح کرتے تھے اور پھر اس میں سے خود بھی تناول فرماتے اور دوسروں کو بھی دیتے تھے" انتہی
"اللقاء الشهري" (34/17)

اور اگر کمپنی کی جانب سے موکل شخص کا نام پرچی پر لکھ کر جانور کے گلے میں ڈال دیا جائے اور ذبح کرنے والا یہ نیت کرے کہ یہ جانور اس پرچی والے شخص کی طرف سے ہے تو  یہ ٹھیک ہو گا، اس طرح سے موکل کی تعیین ہو جائے گی، اس صورت میں موکل کا نام لینا ضروری نہیں ہو گا۔

ہم نے شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ تعالی سے استفسار کیا کہ اگر جانور ذبح کرتے ہوئے  موکل کی تعیین میں خلل آ جائے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ مثلاً: ذبح شدہ جانوروں کی تعداد مطلوبہ عدد سے کم ہو؟
تو انہوں نے کہا:
"ہم معین کر کے جانور ذبح کرنے کو واجب کہتے ہیں، لیکن اگر معین کر کے جانور ذبح نہ کیا جائے تو ہم اسے عام گوشت کی بکری بھی نہیں کہتے،اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے وہ چاہے تو موکل کو اس کا ثواب عطا کر سکتا ہے، تاہم اگر جانوروں کی تعداد میں خلل واقع ہو یا کچھ جانور مر جائیں تو  ذمہ دار وہی ہو گا جس نے اپنے ذمہ داری میں  سستی برتی اور تعیین کے ساتھ جانور ذبح نہیں کیے"

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب