الحمد للہ.
اگر واقعا ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں بيان ہوا ہے اور آپ نے دو برس كى عمر كے اندر اندر پانچ رضاعت يا اس سے زيادہ دودھ پيا تو اس عورت كى سارى اولاد آپ كے بہن بھائى ہونگے چاہے وہ پہلے خاوند سے ہوں جس كى موجودگى ميں آپ نے دودھ پيا يا پھر اس كے فوت ہونے كے دوسرے خاوند سے.
ليكن اس ميں فرق صرف اتنا ہو گا كہ پہلے خاوند كى اولاد آپ كى ماں اور باپ دونوں جانب سے رضاعى بہن بھائى ہو گى، اور دوسرے خاوند كى اولاد ماں كى طرف سے رضاعى بہن بھائى ہونگے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم پر حرام كر دى گئى ہيں تمہارى مائيں اور تمہارى بيٹياں .
پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے بعد فرمايا:
اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہے ( يعنى رضاعى مائيں ) اور تمہارى رضاعى بہنيں النساء ( 23 ).
اور اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت سے بھى وہى كچھ حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے "
متفق عليہ. انتہى.