جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

غير ماكول اللحم جانوروں كى حاصل كردہ چكنائى

12670

تاریخ اشاعت : 09-08-2021

مشاہدات : 9154

سوال

سوال نمبر ( 210 ) كے جواب ميں جانوروں سے حاصل كردہ چربى كو كھانے والى اشياء كے علاوہ مثلا صابن اور كريم وغيرہ ميں ڈال كر استعمال كرنے ميں اختلاف بيان كيا گيا.
اگر ہمارے ـ مسلمانوں ـ ليے ان اشياء كا استعمال كرنا ممكن ہے تو آپ سے گزارش ہے كہ اس نقطہ كى وضاحت كريں، اور اس كے ساتھ درج ذيل آيت اور حديث كا معنى بھى بيان فرما ديں:
فرمان بارى تعالى ہے:
آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے الانعام ( 145 ).
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے فتح مكہ كے سال رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مكہ ميں يہ فرماتے ہوئے سنا:
" يقينا اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب اور مردار اور خنزير اور بت فروخت كرنے حرام كيے ہيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ذرا مردار كى چربى كے متعلق تو بتائيں، كيونكہ يہ كشتيوں اور ہوائى جہازوں كو ملى جاتى ہے، اور اس سے چمڑے كو چكنا كيا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
نہيں، يہ حرام ہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس وقت فرمايا:
اللہ تعالى يہوديوں كو تباہ و برباد كرے، جب اللہ تعالى نے ان پر اس كى چربى حرام كى تو انہوں نے اسے پگھلا كر اسے فروخت كر كے اس كى قيمت كھا لى " صحيح بخارى حديث نمبر ( 2121 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1581 ).
اور دوسرى حديث يہ ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كى لونڈى كو كسى نے بكرى صدقہ ميں دى تو وہ بكرى مر گئى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس بكرى كے پاس كے گزرے تو فرمانے لگے:
تم نے اس كا چمڑا كيوں نہيں اتارا تا كہ تم اس سے فائدہ حاصل كرتيں ؟
تو انہوں نے كہا: يہ مرى ہوئى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
صرف اس كا كھانا حرام ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 363 ).

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حرام كردہ جانوروں كى چربى صابن وغيرہ بنانے ميں استعمال كرنے كے متعلق ہم نے اس سوال ميں بيان كيا ہے جس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن راجح بات يہى ہے كہ اس كو استعمال نہيں كرنا چاہيے.

اس كى مزيد تفصيل ہم درج ذيل نقاط ميں ـ ان شاء اللہ ـ بيان كرتے ہيں:

دوم:

رہا فرمان بارى تعالى:

آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے الانعام ( 145 ).

اس كا معنى اور تفسير درج ذيل ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا

اللہ سبحانہ و تعالى اس آيت ميں اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو حكم ديتے ہوئے فرما رہا ہے كہ اے محمد صلى اللہ عليہ وسلم آپ يہ كہہ ديں كہ ميرے رب نے كھانے والى ان اشياء كے علاوہ كوئى حرام نہيں كيں، اس كے علاوہ باقى سارى حلال ہيں.

كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے

يعنى: كوئى كھانے والا جسے كھائے.

مگر يہ كہ وہ مردار ہو

يہ وہ ہے جو مرگيا ہو مثلا ضرب لگ كر يا گر كر يا كسى كا سينگ لگ كر، يا جو شرعى طريقہ كے علاوہ كسى اور طريقہ سے ذبح كيا جائے.

يا كہ بہتا ہوا خون ہو

يعنى: سائل خون، بہنے والے خون كے علاوہ مثلا جگر اور تلى، اور اس خون كے علاوہ جو ذبح كرنےكے بعد رگوں ميں باقى بچ رہتا ہے.

خنزير كا گوشت ہو

يہ معروف جانور ہے جسے سؤر بھىكہا جاتا ہے.

كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے

يعنى: يہ خبيث اور نجس اور مضر ہے.

يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو

يعنى: جو كسى دوسرے كے نام پر ذبح كيا گيا ہو.

پھر جو شخص مجبور ہو جائے

اس كے كھانے پر جس كا ذكر ہوا ہے.

بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو

يعنى: وہ مجبور ہوئے بغير كھانے والا نہ ہو.

اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا

تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے

اس نے جو كھايا ہے اسے بخش دينے والا اور اس پر رحم كرنے والا ہے.

اس كے ساتھ اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ اس آيت ميں ذكر كردہ كے علاوہ بھى حرام ہيں، اور ان كى تحريم اس كے بعد آئى ہے مثلا: ہر كچلى والے جانور كى حرمت، پرندوں ميں ہر پنجے والا پرندہ اور گھريلو گدھے كى حرمت.

سوم:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى روايت كردہ بخارى ( 2121 ) اور مسلم ( 1581 ) كى حديث جس كے الفاظ درج ذيل ہيں:

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے فتح مكہ كے سال رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مكہ ميں يہ فرماتے ہوئے سنا:

" يقينا اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب اور مردار اور خنزير اور بت فروخت كرنے حرام كيے ہيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ذرا مردار كى چربى كے متعلق تو بتائيں، كيونكہ يہ كشتيوں اور ہوائى جہازوں كو ملى جاتى ہے، اور اس سے چمڑے كو چكنا كيا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نہيں، يہ حرام ہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس وقت فرمايا:

اللہ تعالى يہوديوں كو تباہ و برباد كرے، جب اللہ تعالى نے ان پر اس كى چربى حرام كى تو انہوں نے اسے پگھلا كر اسے فروخت كر كے اس كى قيمت كھا لى "

اس كى شرح يہ ہے:

يہ واضح ہے كہ شراب فروخت كرنے كا حكم بيان ہو چكا ہے.

شراب وہ ہے جو عقل ميں فتور پيدا كر دے اور يہ سب اقسام كو شامل ہے.

اور مردار اور خنزير كا ابھى قريب ہى اوپر بيان ہوا ہے.

اور اصنام: يعنى بت وہ ہيں جو لكڑى يا پتھر يا پيتل اور تانبا يا سونے وغيرہ سے آدمى يا حيوان كى شكل ميں بنائے جائيں.

پھر صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے مردار كى چرپى كو مستثنى كروانا چاہا كيونكہ اس ميں كئى قسم كے فائدے تھے اور وہ يہ كہ: اسے كشتى كو پانى سے محفوظ ركھنے كے ليے اس پر چربى ملى جاتى تھى، اور چمڑوں كو نرم ركھنے كے ليے ملى جاتى تھى، اور لوگ اس سے چراغ جلايا كرتے تھے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان اسباب كو بھى حرمت سے استثناء كا موجب قرار نہيں ديا، بلكہ فرمايا نہيں يہ حرام ہے ".

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہوديوں كا فعل بيان كيا: كہ انہوں نے اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ چربى كو پگھلا كر اسے موم وغيرہ كى شكل دے دى پھر فروخت كر كے اس كى قيمت كھا لى.

علماء كرام " ھو " كى ضمير ميں اختلاف كرتے ہيں كہ يہ ضمير كسى طرف لوٹتى ہے كہ آپ نے فرمايا: " لا، ھو حرام " نہيں وہ حرام ہے، بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ اس سے نفع حاصل كرنا حرام ہے، اور كچھ دوسرے علماء كہتے ہيں اسے فروخت كرنا حرام ہے، اس قول كو شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اس كو صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 136 ).

صحيح قول يہى ہے: كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى فرمان: " ھو حرام " ميں ضمير بيع يعنى فروخت كى طرف لوٹتى ہے، حتى كہ جو فائدے صحابہ كرام نے شمار كيے تھے اس كے ساتھ، اس ليے كہ حديث ميں فروخت كا ذكر ہے.

اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: وہ حرام ہے، يعنى اس سے اس طرح كا نفع اور فائدہ لينا حرام ہے، اس ليے نہ تو يہ كشتى كى لكڑيوں كو لگائى جا سكتى ہے، اور نہ ہى اس سے چمڑوں كو نرم كرنا صحيح ہے، اور نہ ہى اس سے لوگ چراغ جلا سكتے ہيں، ليكن يہ قول ضعيف ہے.

صحيح يہ ہے كہ: اس سے كشتى كى لكڑيوں كو تيل لگانا اور اس سے چمڑے كو نرم كرنا اور لوگوں كا چراغ جلانا صحيح ہے . اھـ

امام صنعانى كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان: " ھو حرام " ميں ضمير احتمال ہے بيع يعنى فروخت كے ليے ہو، يعنى: چربى فروخت كرنى حرام ہے، اور يہى ظاہر ہے؛ كيونكہ كلام كا سياق و سباق يہى ہے؛ اور اس ليے بھى كہ مسند احمد ميں بھى يہ حديث ہے اس ميں ہے:

" تو مردار كى چربى فروخت كرنے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے " الحديث.

اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس قول كے مدلول پر لوٹتى ہو " يہ كشتيوں كے تختوں كو لگائى جاتى ہے " آخر تك، اور اكثر نے اس كو اس پر محمول كيا ہے كہ مردار كى كسى بھى چيز سے نفع نہيں حاصل ہو سكتا، صرف چمڑا دباغت كے بعد استعمال كرنا جائز ہے.

اور جو كہتا ہے كہ: اس كى ضمير بيع اور فروخت كى طرف لوٹ رہى ہے، انہوں نے اس سے استدلال كيا ہے كہ مردار كتوں كو كھلانے پر اجماع ہے، چاہے وہ كتے شكارى بھى ہوں جو اس سے فائدہ ليتا ہے، اور آپ يہ جان چكے ہيں كہ ضمير كا قريبى مرجع بيع ہے، تو مطلقا نجس سے فائدہ حاصل كرنا جائز ہوا اور اسے فروخت كرنا حرام ہے جس كا علم آپ كو ہو چكا ہے.

اور اس قول كى قوت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہوديوں كى مذمت ميں قول كى بنا پر زيادہ ہو جاتى ہے كہ يہوديوں نے چربى پگھلا كر اسے فروخت كر كے اس كى قيمت كھا لى، تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيع اور فروخت كى طرف ظاہر توجہ ہے جس كے نتيجہ ميں قيمت حاصل ہوتى ہے.

اور جب حرمت فروخت اور بيع كے ليے ہے تو پھر مردار كى چربى اور نجس تيل كا ہر چيز ميں نفع حاصل كرنا جائز ہوا صرف آدمى اپنے بدن پر اسے نہيں لگا سكتا اور اسے كھا نہيں سكتا ( يعنى آدمى كے ليے مردار كى چربى كھانا اور نجس تيل لگانا جائز نہيں ).

تو يہ دونوں اسى طرح حرام ہونگى جس طرح مردار كھانا اور اس كى نجاست سے نرمى حاصل كرنا حرام ہے، اور كتوں كو مردار كى چربى كھلانا، اور نجس اور پليد شدہ شہد كھلانا اور اسے جانوروں كو كھلانا جائز ہے، اور ان سب كو شافعى مسلك نے جائز قرار ديا ہے، اسے قاضى عياض نے امام مالك اور اكثر صحابہ اور ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب اور ليث سے نقل كيا ہے ....

اور حديث ميں اس كى دليل ہے كہ جب كسى چيز كى فروخت كرنا حرام كر ديا جائے تو اس كى قيمت بھى حرام ہو جاتى ہے، اور ہر حيلہ جو حرام كو حلال كرنے كا باعث بنے تو وہ باطل ہے .

ديكھيں: سبل السلام ( 3 / 6 ).

چہارم:

اور ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا والى حديث كو امام بخارى نے حديث نمبر ( 1421 ) اور امام مسلم نے حديث نمبر ( 363 ) روايت كيا ہے، اور يہ الفاظ مسلم كے ہيں بخارى كى روايت ميں " الدباغ " كے الفاظ نہيں.

اس كے الفاظ يہ ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كى لونڈى كو ايك بكرى صدقہ ميں دى گئى تو وہ مر گئى، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس بكرى كے پاس سے گزرے تو فرمايا:

تم نے اس كا چمڑا كيونہ نہ اتارا، اور اسے دباغت دے كر اس سے فائدہ حاصل كرتے ؟

تو انہوں نے عرض كيا: يہ تو مرى ہوئى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اس كا كھانا حرام ہے "

اس حديث كا معنى اور شرح يہ ہے:

ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كى لونڈى كے پاس ايك بكرى تھى جو كسى نے اس كو صدقہ ميں دى تھى، اور جب وہ مر گئى تو انہوں نے گمان كيا كہ اس سے كوئى فائدہ حاصل نہيں كيا جا سكتا، اور انہوں نے اسے پھينك ديا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى كچھ صحابہ كرام كے ساتھ وہاں سے گزرے، اور جب اس بكرى كو ديكھا تو انہيں كہنے لگے:

تم نے اس مرى ہوئى بكرى كا چمڑا كيوں نہيں اتارا اور اس سے فائدہ حاصل كرتے ؟

تو وہ عرض كرنے لگے: يہ مرى ہوئى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اس كا كھانا حرام ہے، ليكن كھانے كےعلاوہ اس سے فائدہ حاصل كرنا مثلا چمڑا اتار كر دباغت دينے كے بعد جائز ہے.

علماء كرام مردار كے چمڑے كو دباغت دينے كے بعد چمڑے كے حكم ميں اختلاف كرتے ہيں، شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے يہ اختيار كيا ہے كہ:

دباغت مردار كے چمڑے كو پاك كر ديتى ہے، اگر وہ مرا ہوا جانور ماكول اللحم ميں سے ہو، مثلا اونٹ، يا گائے يا بكرى، ليكن اگر وہ ايسا جانور ہے جس كا گوشت نہيں كھايا جاتا مثلا خنزير تو اس كو دباغت دينے سے بھى جلد پاك نہيں ہوتى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 72 ).

شيخ الاسلام علماء كرام كے اقول ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:

تردد كا ماخذ يہ ہے كہ: آيا دباغت زندگى كى طرح ہے كہ وہ اسے پاك كر ديتى ہے جس طرح زندگى ميں پاك تھى ؟

يا كہ وہ ذبح كرنے كى طرح ہے كہ جو ذبح كرنے سے پاك ہو جاتا ہے اس طرح دباغت سے بھى ؟

دوسرى بات زيادہ راجح ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وحشى جانوروں كى جلد سے منع فرمايا ہے، جيسا كہ اسامہ بن عمير الذھلى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وحشى جانور كى جلد سے منع فرمايا "

اسے احمد اور ابو داود اور نسائى نے روايت كيا ہے، اور ترمذى نے " اسے بچھانے " كے الفاظ زائد روايت كيے ہيں، اور اس قول ميں سب احاديث كے درميان جمع ہے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 95 - 96 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب