سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

خاوند زيادہ بچے نہيں چاہتا ليكن بيوى چاہتى ہے

127170

تاریخ اشاعت : 16-09-2012

مشاہدات : 4895

سوال

اللہ نے اپنا احسان اور كرم كرتے ہوئے ہميں دو بچوں سے نوازا ہے، اور ميں تيسرا بچہ بھى چاہتى ہوں ليكن ميرا خاوند اس سے انكاركرتا اور كہتا ہے كہ يہ دور بہت مشكل ہے اور ہميں دو بچے ہى كافى ہيں، اس ليے وہ كنڈوم استعمال كرتا ہے تا كہ تيرا بچہ پيدا نہ ہو.
ميں جب بھى اس موضوع كے بارہ ميں بات كرتى ہوں تو خاوند مجھ پر ناراض ہوتا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميرے ليے اس حالت ميں خاوند كے ساتھ ہم بسترى كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
اور كيا ميں اس سے طلاق طلب كر سكتى ہوں، يا كہ ميں اپنى رغبت ختم كر كے خاوند كى چاہت كو اختيار كرنا افضل ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شريعت اسلاميہ نے كثرت اولاد كى ترغيب دلائى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ نے اس پر ابھارا ہے، جيسا كہ ابو داود كى درج ذيل حديث ميں وارد ہوا ہے:

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگا:

مجھے ايك حسب و نسب اور جمال والى عورت كا رشتہ ملا ہے ليكن وہ بانجھ ہے بچہ نہيں جن سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نہيں ( تم اس سے شادى مت كرو ).

وہ شخص پھر دوبارہ بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس عورت سے شادى كرنے سے منع كر ديا، پھر وہ تيسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو، اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارى كثرت كے ساتھ امتوں پر فخر كرونگا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے خاوند اور بيوى كو اولاد زيادہ پيدا كرنے كى حرص ركھنى چاہيے، اور اس سے انہيں خوشى حاصل ہونى چاہيے، اور وہ اپنے اوپر اللہ تعالى كى اس نعمت كا دونوں كو شكر بجا لانا چاہيے.

دوم:

كسى مصلحت و سبب كى خاطر اولاد ميں كچھ عرصہ كا وقفہ كرنا جائز ہے، مثلا اگر عورت كمزور يا بيمار ہو، ليكن فقر و فاقہ يا اولاد كى تربيت كى خاطر اولاد پيدا نہ كرنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ اس ميں تو اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ سوء ظن ہے.

رابطہ عالم اسلامى كے تابع اسلامى فقہ اكيڈمى كى قرار ميں درج ذيل فيصلہ درج ہے:

اسلامى فقہ اكيڈمى كا متفقہ فيصلہ ہے كہ مطلقا تحديد نسل جائز نہيں، اور فقر و فاقہ كے خدشہ و مقصد سے حمل روكنا جائز نہيں ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى روزى دينے والا اور بڑى قوت والا ہے، اور زمين ميں جتنى بھى جاندار اشياء ہيں ان كى روزى اللہ تعالى كے ذمہ ہيں، اسى طرح اگر كوئى اور ايسا سبب ہو جو شرعا معتبر نہيں تو بھى منع حمل جائز نہيں ہوگا.

ليكن اگر يقينى طور پر ضرر و نقصان ہوتا ہو جس كى بنا پر حمل سے منع كيا گيا ہو، يا پھر كسى ضرورت كى خاطر حمل ميں تاخير كى جائے، كہ عورت كو نارمل بچہ پيدا نہ ہوتا ہو بلكہ اس كے ليے آپريشن كرنا پڑے تو پھر كچھ دير كے ليے حمل ميں تاخير كرنا جائز ہے، اس ميں كوئى مانع نہيں، اسى طرح دوسرے شرعى اسباب كى بنا پر بھى تاخير كى جا سكتى ہے ليكن اس كے ليے اسباب كى تعيين كوئى مسلمان قابل اعتماد اور ثقہ ڈاكٹر ہى كريگا.

بلكہ بعض اوقات تو بالكل مكمل طور پر حمل سے منع كيا جا سكتا ہے، ليكن يہ اس صورت ميں ہے جب ماں كى جان كو حمل كى بنا پر خطرہ پيدا ہو، اور يہ بھى مسلمان اور قابل اعتماد ڈاكٹر ہى طے كرينگے " انتہى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 200 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا معاشرے كے فساد اور اس معاشرہ ميں اولاد كى تعليم و تربيت پر كنٹرول نہ ہونے كى بنا پر كچھ عرصہ كے ليے حمل منظم كرنا يعنى ہر بانچ برس كے بعد حمل ہونے كا فيصلہ كرنا صحيح ہے يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس نيت سے حمل منظم كرنا جائز نہيں ہے، كيونكہ اس طرح تو وہ اس چيز ميں اللہ كے ساتھ سوء ظن ركھ رہا ہے جس كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ترغيب ديتے ہوئے فرمايا ہے:

" ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ اولاد پيدا كرنے والى ہو ..... "

ليكن اگر عورت كى حالت كى بنا پر حمل كو منظم كيا جائے كہ وہ مسلسل حمل برداشت نہيں كر سكتى تو ہم كہيں گے كہ ايسا كرنا جائز ہے، اگرچہ اس حالت ميں بھى ايسا نہ كرنا افضل و اولى اور بہتر ہے " انتہى

مزيد آپ سوال نمبر ( 7205 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

كنڈوم استعمال كرنا اور بيوى كے ساتھ عزل يعنى انزال رحم سے باہر كرنا اس شرط كے ساتھ جائز ہے كہ بيوى اپنے خاوند كو ايسا كرنے كى اجازت دے، كيونكہ بيوى كو بھى استمتاع اور حصول اولاد كا حق حاصل ہے.

عزل كے جائز ہونے كى دليل يہ ہے كہ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عزل كيا كرتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو عزل كى خبر ہوئى ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں ايسا كرنے سے منع نہيں فرمايا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5209 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1440 ) مندرجہ بالا الفاظ مسلم كے ہيں.

اوپر بيان كردہ شرط كے بنا پر خاوند اپنى بيوى كى اجازت كے بغير عزل نہيں كر سكتا.

اور اگر خاوند اپنے موقف پر مصر ہو اور آپ اولاد كى رغبت ركھتى ہوں تو خاوند غلطى پر ہے اور اسے ايسا نہيں كرنا چاہيے، ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ اس كے اس غلط عمل كى بنا پر آپ بھى غلطى كا ارتكاب كرتے ہوئے ہم بسترى نہ كريں، كيونكہ معصيت و نافرمانى كے مقابلہ ميں معصيت و نافرمانى نہيں كى جاتى.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب خاوند اپنى بيوى كو اپنے بستر پر ہم بسترى كے ليے بلائے اور بيوى انكار كر دے اور خاوند اس پر ناراضگى كى حالت ميں رات بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے اس عورت پر لعنت كرتے رہتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1736 ).

آپ پر جو حق مقرر كيا گيا ہے اس كى ادائيگى كريں، اور اپنا حق اللہ سبحانہ و تعالى سے مانگيں، اور صبر كر كے اجروثواب كى نيت ركھيں، اور خاوند كو وعظ و نصيحت كرتى رہيں، اور اس سے طلاق مت طلب كريں، بلكہ آپ اپنے گھر اور خاندان كى حفاظت كريں، اور اپنى اولاد كى تربيت كا اہتمام كرنے كے ساتھ ساتھ اللہ سبحان و تعالى سے نيك و صالح اولاد كا سوال كرتى رہيں، كيونكہ جب اللہ سبحانہ و تعالى نے بچہ آپ كے مقدر ميں لكھ ديا تو پھر اسے نہ تو كوئى كنڈوم روك سكتا ہے، اور نہ ہى عزل وغيرہ.

امام احمد رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ عزل والى حديث ميں بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں اپنى لونڈى كے ساتھ عزل كرتا اور اس سے ہم بسترى كرتا تو اس نے ايك عزل كے باوجود ايك بچہ جنم ديا چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى جس نفس كو پيدا كرنا مقدر كر دے تو وہ پيدا ہو كر رہےگا "

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہميں لونڈياں حاصل ہوئيں تو ہم ان سے عزل كيا كرتے تھے، چنانچہ ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس سلسلہ ميں دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تم ايسا كيا كرتے ہو! نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بات تين بار دھرائى اور فرمايا: جو جان بھى قيامت تك پيدا ہونے والى ہے وہ پيدا ہو كر رہےگى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5210 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1438 ).

اللہ سبحانہ و تعالى سب كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جو اللہ كو پسند ہيں اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب