جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

عورت پر نماز با جماعت فرض نہیں ہے، نیز عورت کی گھر میں تنہا نماز افضل ہے۔

سوال

عورت کیلیے نماز با جماعت کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ تنہا نماز میں اس کیلیے خشوع کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں، اور اگر گھر میں والد اور بھائیوں کے ساتھ دوبارہ فرض نماز با جماعت کا موقع ملے تو کیا اس کی یہ نماز نفل شمار ہو گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت پر نماز با جماعت فرض نہیں ہے، عورت کی گھر میں تنہا نماز مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔

چنانچہ سنن ابو داود (567)میں  ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنی خواتین کو مساجد میں آنے سے مت روکو؛ اگرچہ ان کے گھر ان کیلیے بہتر ہیں) اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے  ارواء الغلیل (515)میں صحیح قرار دیا ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"خواتین پر پانچوں نمازوں میں سے کوئی بھی نماز مسجد میں با جماعت ادا کرنا واجب نہیں ہے، چاہے نماز فرض ہو یا نفل  ان کی گھروں میں نماز مساجد میں نماز ادا کرنے سے زیادہ بہتر ہے، تاہم اگر خاتون مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا چاہے تو  اسے روکنا نہیں چاہیے بشرطیکہ نماز کی ادائیگی کیلیے جاتے ہوئے اسلامی آداب کا بھر پور خیال رکھے، مثلاً: مکمل شرعی پردے کے ساتھ ، خوشبو استعمال کئے بغیر  مسجد جائے اور مردوں کے پیچھے نماز ادا کرے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/213)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"خواتین کی نماز گھروں میں ہی افضل ہے چاہے وہ گھروں میں تنہا نماز ادا کریں یا با جماعت "ا نتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (12/ 78)

اگر گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام ہو تو عورت کیلیے افضل یہی ہے کہ ان کے ساتھ نماز ادا کرے اکیلے نماز مت پڑھے، چاہے یہ جماعت خواتین کے ساتھ ہو یا محرم مردوں کے ساتھ۔

چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی "مصنف" (4989) میں ام الحسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ خواتین کی امامت کرواتی تھیں، اور وہ اس دوران انہی کی صف میں کھڑی ہوتیں۔
اس اثر کو البانی رحمہ اللہ نے "تمام المنہ" صفحہ: 154 میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح سنن الکبری از بیہقی : (5138) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرض نمازوں کیلیے خواتین کی جماعت کروائی، تو وہ جماعت کرواتے ہوئے صف کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔
اس اثر کو نووی رحمہ اللہ نے "الخلاصہ" میں صحیح کہا ہے جیسے کہ "نصب الرایہ "از : زیلعی  (2/39) میں موجود ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر خواتین گھر میں با جماعت نماز کا اہتمام کریں تو یہ افضل ہے، اس کیلیے خاتون امام پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو گی، ان کی امامت وہی کروائے گی جس کے پاس سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو اور دین کے احکامات اس کے پاس سب سے زیادہ ہوں" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/213)

اور اگر کسی خاتون کو تنہا نماز ادا کرنے پر زیادہ خشوع حاصل ہوتا ہے تو ایسی صورت میں بھی اگر گھر میں نماز با جماعت کا موقع ملے  تو وہ با جماعت نماز ہی ادا کرے تا کہ اسے جماعت کا ثواب مل سکے کیونکہ جماعت کا ثواب بہت زیادہ ہے، ہو سکتا ہے اگر خاتون جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرے تو یہ اس کے بارے میں بد گمانی کا باعث ہو کہ یہ امامت کروانے والی خاتون  یا نماز با جماعت کو پسند نہیں کرتی!

یہ خدشہ کہ خاتون کو تنہا نماز پڑھنے کی وجہ سے زیادہ خشوع حاصل ہوتا ہے یہ محض وہم ہوسکتا ہے، ہو سکتا ہے شیطان اس کے ذہن میں یہ بات ڈال کر با جماعت نماز کی فضیلت سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

اس لیے ایسی خاتون کو چاہیے کہ وہ گھر میں جماعت کی سہولت ملنے پر با جماعت ہی ادا کرے اور نماز میں خشوع حاصل کرنے کیلیے بھر پور کوشش کرے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب